حکومت اور بچوں کا مذاق

جب تک بچوں کی چھٹیاں ہوں،میں جوں ہی گھر داخل ہوتا ہوں اچانک میرے سامنے ہی میرے بچے مجھے ڈرانے کے لیے مختلف جگہوں پر چھپ کر مجھے ڈرانے کے لیے بھاگ بھاگ کر ادھر سے ادھر۔۔ ادھر سے ادھر گھومتے ہیں پھر میرے سامنے ہی میرا بیٹا دروازے کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے توبیٹی پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہے سب سے چھوٹی والی چیخ کر چارپائی کے نیچے سے آواز لگاتی ہے بابا میں یہاں نہیں چھپی ہوئی۔۔ پھر میں انہیں ڈھونڈنے کا ڈرامہ کرتا ہوں ۔۔ اونچی آواز میں کہتا ہوں پتا نہیں یہ بچے کہاں چھپ گئے۔۔۔

میرے معصوم بچے ، اس سے بھی اونچی آواز میں ہنستے ہوئے کہتے ہیں ۔۔ بابا ہم دوسرے کمرے میں ہیں۔۔ میں ان کو مزید خوش کرنے کے لیے جان بوجھ کر اپنے کمرے سے نکل کر ان کے کمرے میں جاتا ہوں۔۔ واپسی پر میری توقع کے عین مطابق میرا بیٹا اچانک دروازے کے پیچھے سے نکل کر مجھے زوردار آواز میں ڈراتا ہے۔۔ میں بھی ڈر جانے کی مکمل اداکاری کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔ پھر پردے کے پیچھے سے نکل کر میری بیٹی آتی ہے اور زور سے کہتی ہے پیکا بو۔۔ میں پھر ڈرتا ہوں۔۔ پھر چارپائی کے نیچے سے سب سے چھوٹی شہزادی بھاگتی ہوئی آتی ہے میری ٹانگوں سے لپٹ جاتی ہے پھر کہتی ہے پیکا بو۔۔۔ میں پھر ڈر جاتا ہوں۔۔ بچے خوش ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے بابا کو ڈرا دیا۔۔ میری بھی ساری تکان دور ہو جاتی ہے جب وہ کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔

ایسے ہی صبح جب میں اخبار پڑھتا ہوں ، اچانک تینوں بچے باری باری میرے پیچھے آتے ہیں اور میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں بتائیں بابا۔۔ میں کون ہوں ۔۔ میں جان بوجھ کر غلط نام بتاتا ہوں۔۔ وہ پھر باری باری یہی حرکت کر کے ہنستے ہیں۔۔ بابا کو پتا نہیں چلا۔۔ بابا کو پتا نہیں چلا ۔۔

ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بھی یہ معصوم بچے کہتے ہیں بابا۔۔ مجھے پہچانیں۔۔ میں کون ہوں؟ میں پھر انجان بن جاتا ہوں۔۔ مختلف نام لے کر کہتا ہوں آپ فلاں ہو، آپ فلاں ہو۔۔ وہ ہنستے ہنستے اپنی ماں کو فون پکڑا کر کہتے ہیں۔۔ مما، بابا کو نہیں پتا چلا میں کون ہوں، آپ بتائیں بابا کو۔۔ میں ان کا بیٹا بول رہا ہوں۔۔ پھر ہم دونوں میاں بیوی ان ننھے منے ذہنوں کی پیاری پیاری باتوں پر دل کھول کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ ایسی ہی شرارتیں کی ہوں گی وہ بھی کتنا ہنستے ہوں گے۔

میں سوچتا ہوں بچے کتنے معصوم ہیں۔ وہ اونچی آواز میں ہنس ہنس کر چھپ رہے ہوتے ہیں میرے سامنے دوڑ دوڑ کے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ سمجھتے ہیں کہ بابا نے دیکھا نہیں۔۔اور انہوں نے مجھے ڈرا دیا۔۔ بالکل ایسے ہی مجھے یوں لگتا ہے جیسے اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت سارے وزرا۔۔ وزیر اعظم نواز شریف ۔۔ وزیر اعظم کے میڈیا کے افسران۔۔ جناب فواد حسن فواد، جناب محی الدین وانی۔۔یہ سب بھی بالکل بچے ہیں۔ یہ سوچتے ہیں یہ ہمیں مختلف ٹیکسوں میں پھنسا کر ، بجلی بلوں، گیس بلوں پر مختلف سرچارج لگا کر ۔۔ ہماری روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر یہ سب بھی یہ سوچتے ہیں جیسے ہمیں بالکل پتہ نہیں چلا۔

خواجہ آصف کہتے ہیں بجلی کی قیمتوں میں کمی کی ہے۔۔ بالکل اس معصوم بچے کی طرح جیسے ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا کہ ہمارے بل دوگنا ہو گئے، اس پر ایف سی سرچارج ، اس پر ٹی آر سرچارج اور پھر جنرل سیلز ٹیکس۔۔ ان سب چیزوں سے بھلا بل کو کیا فرق پڑے گا۔۔ کاغذ پر لکھے حروف ہیں کوئی بچوں کی ہنسی کی آواز تو نہیں آتی جس سے صارفین کو علم ہو کہ انہیں کس کس نام کے سرچارج سے لوٹا جا رہا ہے۔۔ یہ بھی بچوں کی طرح ہنستے ہوں گے۔۔ مگر دوسری جانب ان بلوں کی ادائیگی کرتے صارفین کو ماں باپ کی طرح ان بے ڈھنگے مذاق پر ہنسی نہیں آتی ، رونا آ جاتا ہے۔

اسحاق ڈار جب یہ کہتے ہیں ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔۔ ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہیں۔۔ تو بھی مجھے وہ ایک معصوم بچہ لگتے ہیں جو ہم سے مذاق کر رہا ہے۔۔ہماری کمر ٹوٹ گئی ہے۔۔ مہنگائی میں دو سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔۔ ترقی کے ثمرات ہم تک اس صورت میں پہنچ رہے ہیں کہ ہر چیز جو نئی تعمیر ہوتی ہے اس کی لاگت ہماری جیب پر بھاری پڑتی ہے۔ اسحاق ڈار جب جب حکومت میں وزیر خزانہ بنتے ہیں ہمارے ایسے لوگ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال یہ نعرہ لگاتے ہیں ملک بھر میں ترقی کا جال بچھ جائے گا۔۔۔ تو بھی ہم ایسے لوگ ایسے بھونڈے مذاق پر ہنسنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتے ہیں کیونکہ ہمیں لاہور کے بعد اب تمام تر ترقیوں کا رخ نارووال کی جانب ہی نظر آتا ہے۔۔ شاید ملک کی ترقی کا راستہ نارووال سے نکلتا ہو۔۔احسن اقبال یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملینئیم ڈویلپمنٹ گولز حاصل نہ ہونے کا ذمہ دار میڈیا ہے جو ہر وقت بندر تماشا دکھاتا ہے، اب کون ان کو بتائے جناب جب آپ اپوزیشن میں تھے اس وقت یہ بندر تماشا آپ کو ٹی وی چینلز پر بہت اچھا لگتا تھا۔۔ اب کیوں برا لگتا ہے؟

اسی طرح وزیر اعظم بھی اپنے مشیران خاص فواد حسن فواد اور محی الدین وانی کی مشاورت سے جو تقریر کرتے ہیں وہ بھی بچوں کا مذاق ہی لگتی ہے۔۔ وہ اپنے اوپر مخالفین کے لگائے الزامات کا جواب دینے کے بجائے مخالفین پر نئے الزامات لگاتے ہیں۔۔ تقریر کرنے کے بجائے رونا شروع کر دیتے ہیں۔۔ سنا ہے یہ بھی ان کو وانی صاحب بتاتے ہیں کہ انہیں کتنی دیر بھرائی ہوئی آواز میں بات کرنی ہے اور کتنی دیر پرجوش انداز میں دشمن کو للکارنا ہے۔

ماشاء اللہ اپنے محی الدین وانی صاحب کے دور میں وزارت اطلاعات بھی ان کے ماتحت دکھائی دیتی ہے۔۔ کس اخبار کو کتنے اشتہار دینے ہیں محی الدین وانی صاحب طے کرتے ہیں۔۔ ٹی وی چینلز کے معاملات دختر اعظم طے کرتی ہیں۔۔ پھر یہ بھی شفافیت کا نعرہ لگاتے ہیں۔۔ بالکل معصوم بچے کی طرح۔۔ اس مذاق پر بھی ہم ہنس نہیں سکتے۔۔۔ پتا نہیں ہم لوگوں کی اتنی منفی سوچ کیوں ہے اگر ہمارے بچے ہمارے ساتھ مذاق کریں تو ہم تھکن کا بھی خیال نہیں کرتے ان کے ساتھ کھیلتے ہیں، ان کے مذاق پر ہنستے ہیں لیکن اگر ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر ہمارے حکمران بننے والے ہماری آنکھوں کے سامنے ہمیں بے وقوف بنائیں ہمارے ساتھ مذاق کریں تو ہنسنے کے بجائے رونا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہ بھی مذاق ہے ۔۔ اور کئی برس سے جاری ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ہم لوگ منفی سوچ کے کیوں ہیں ؟ کیوں ہمیں اپنے حکمرانوں کے پیار بھرے مذاق پر ہنسی نہیں آتی؟۔۔۔ جواب سمجھ آئے تو مجھے بھی بتائیے گا۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے