کشمیریوں پر رحم کی ضرورت

نوعیت میں فرق ضرور ہے لیکن ہندوستانی کشمیریوں کے دشمن ہیں تو ہم پاکستانی ان کے مجرم ہیں۔کشمیر کے معاملے میں ہندوستان نے ظلم کے پہاڑ توڑے ، ان کی آزادی کو سلب کیا، ان کو غلام بنانے کی کوشش کی اور کررہا ہے ۔ ان کے ہزاروں نوجوانوں کو شہید کیا، ہزاروں مائوں اور بہنوں کی عصمت دری کی ، ان سے اور ان سے متعلق دنیا سے کئے گئے وعدے توڑ ڈالے ، علیٰ ہذہ القیاس۔ ہم پاکستانیوں نے ان سے جذباتی وابستگی تو رکھی ، ان کے سروں پر سودے بازی نہیں کی ، ان کے نام پر ہندوستان کے ساتھ تین جنگیں لڑیں بلکہ ان کی محبت میں اپنے وطن کو بھی دہشستان میں بدل دیا لیکن حکمت عملی ایسی اپنائے رکھی کہ کشمیریوں کو آزادی دلواسکے اور نہ ان کی تکلیفوں میں کمی لاسکے ۔ تحریک و ہ اٹھادیتے ہیں اور کریڈٹ ہم لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قربانیاں وہ دیتے ہیں اور مونچھوں کو تائو ہم دیتے ہیں۔ جانیں وہ لٹاتے ہیں اور ان پر سیاست ہم چمکاتے ہیں ۔ کشمیری پاکستان سے ملنے کی خاطر وہاں پر ووٹنگ کا بائیکاٹ کرلیتے ہیں اور ہمارے سیاستدان ان کے نام پر اپنے ووٹ بڑھانے میں مگن رہتے ہیں ۔ ہندوستان کی سول ملٹری قیادت کشمیریوں کو کچلنے کے معاملے میں ایک صفحے پر رہتی ہے لیکن پاکستان میں اسے کبھی ملٹری لیڈرشپ ، سویلین لیڈر شپ کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لئے ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کرتی ہے اور کبھی سویلین لیڈر شپ ، ملٹری لیڈرشپ کو دبائو میں لانے کے لئے ۔ جب سیاست کی ضرورت تھی تو میاں نوازشریف کشمیر کاز کے سب سے بڑے چیمپئن تھے اور جب عسکری اداروں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے تووہ کشمیر پالیسی کے شدید نقاد بن گئے۔

کسی زمانے میں جماعت اسلامی کی ساری سیاست کشمیر کے گرد گھومتی تھی لیکن اب وہ مسئلہ کشمیر کو اپنی سیاست کے گرد گھمانے کی کوشش میں مگن ہے ۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جس نے عسکری اداروں کی خوشامد کرنی ہوتو وہ بے وقت غیرضروری طور پر کشمیریوں کا ترجمان بن جاتا ہے اور جو عسکری اداروں سے ناراض ہو جاتا ہے تو وہ اپنا غصہ کشمیر کاز پر نکالتا رہتا ہے۔ بلکہ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جس کا کسی فرد ، کسی سیاستدان ، کسی اینکر یا کسی میڈیا آرگنائزیشن پر کسی اور وجہ سے غصہ ہو تو اسے ہندوستان کا ایجنٹ اور کشمیریوں کا دشمن ڈکلیئر کردیاجاتاہے ، جواب میں وہ بھی اپنی جان اور ایمان کو بچانے کے لئے میرٹ پر کشمیریوں کی حمایت کی بجائے افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ بیرون ملک موجود کشمیر سینٹرز کچھ لوگوں نے کمائی کا ذریعہ بنادئیے ہیں اور ملک کے اندر پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی سیاسی رشوت کی شکل اختیار کرگئی ہے ۔

تازہ ترین مثال دیکھ لیجئے ۔ گزشتہ سالوں میں بیشتر پاکستانی سیاسی رہنما ، کشمیر کو اسی طرح بھول گئے تھے جس طرح کہ انتخابات کے بعد اپنے اپنے حلقوں کے عوام کو بھول جاتے ہیں ۔ بیشتر اینکرز اور کالم نگار بھی کشمیر کو بھول کر زیاد ہ ریٹنگ دینے والے دیگر موضوعات پر اپنی اپنی دکان چمکارہے تھے ۔ افغانستان کے محاذ پر سیاسی دکانداری اچھی چمک رہی تھی ، امریکہ کی توجہ بھی مل رہی تھی ، مقتدر قوتوں کی طرف سے شاباش بھی اسی محاذ میں زیادہ مل رہی تھی ، اس لئے مولانا سمیع الحق، حافظ سعید ، جنرل حمید گل (مرحوم) اور دیگر م’’غازی‘‘افغانستان ، افغانستان اور طالبان طالبان کھیل رہے تھے ۔ نام دفاع پاکستان کونسل رکھا تھا لیکن ذکر ہر وقت افغانستان کا کرتے تھے ۔ جلوس نکالتے تھے تو رخ پاکستان کی شہہ رگ کشمیر کی طرف نہیں بلکہ عموماً مغرب یا اسلام آباد کی طرف ہوتا تھا۔ اب جبکہ ہر طرف سے مایوس ہوکر ایک بار پھر کشمیریوں نے اپنے خون سے ایک پرامن سیاسی تحریک دوبارہ اٹھادی اور دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا تو پاکستان میں بھی سب کو کشمیر یاد آگیا ۔ آصف علی زرداری کے صاحبزادے نے بھی مودی کا جو یار ہے ، غدار ہے ، غدار ہے کے نعرے لگانے شروع کئے (وہ الگ بات کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد وہ دوبارہ مقبوضہ کشمیر کو بھول گئے ہیں) ، میاں نوازشریف کے وزیروں اور مشیروں نے بھی کشمیر کا ذکر شروع کردیا اور ہم اہل صحافت کو بھی کشمیری یاد آگئے ۔دفاع پاکستان کونسل کے مہروں نے تو اپنی دکان مکمل زوروشور کے ساتھ دوبارہ کھول دی ۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کشمیر میں آزادی کے لئے احتجاجی تحریک کی نئی لہر میں ، دفاع پاکستان کونسل کا کیا رول ہے ۔ کیا مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے، شہید وانی کے ساتھ کشمیرکے پہاڑوں میں لڑرہے تھے ۔ کیا حافظ سعید کے صاحبزادے فرنٹ لائن پر موجود تھے ؟۔ کیا شیخ رشید احمد دھرنے کا کنٹینر کلاشنکوفوں سے بھر کر سری نگر لے گئے تھے ؟۔ کیا جنرل حمید گل مرحوم کی سیاسی وراثت کے دعویدار عبداللہ گل کی نوجوانان مقبوضہ کشمیر کے کوہساروں میں لڑرہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لاہور ، اسلام آباد اور اسلام آباد کی سڑکوں پر نعرے لگانے کا کشمیریوں کو کیا فائدہ اور ہندوستان کو کیا نقصان پہنچتا ہے ۔ تکلیف ہوتی ہے تو پاکستانیوں کو ہوتی ہے کہ جن کو اپنے دفاتر ،اسپتال یا اسکول وغیرہ جانے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کاروبار بند ہوتا ہے تو پاکستانی تاجروں کا ہوتا ہے ۔ موجودہ دنیا میں اس تحریک کو دنیا کی حمایت حاصل ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اس میں باہر کے لوگوں کی مدد شامل نہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کی موجودہ تحریک ان کی اپنی ہے جو ان کی قربانیوں کی مرہون منت ہے لیکن جب پاکستان میں عالمی سطح پر متنازع اور پاکستان کے اندر عوامی حمایت سے محروم لوگ مفت میں ان کے مامے اور چاچے بنتے ہیں تو ان کی تحریک کے لئے نقصان کا موجب بنتے ہیں۔ پاکستان کے اندر جلسوں میں ان کے خطابات اور ٹی وی انٹرویوز کے کلپس لے کر ہندوستانی میڈیا پھر عالمی سطح پر کشمیریوں کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ دوسرا ظلم اسی طرح کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت اور بنیادی انسانی حقوق کی تحریک کو کفر اور اسلام کی جنگ بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہم دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد کی آزادی کی حمایت کرے ۔ اب اگر معاملہ حق خودارادیت کا ہو تو ہم امریکہ، روس اور چین جیسے ممالک سے توقع کرسکتے ہیں کہ کسی مرحلے پر وہ حمایت کرلیں لیکن جب کفر اور اسلام کی جنگ ہو تو پھر ان غیرمسلم ملکوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں۔ آج کی دنیامیں کسی دھڑے ، کسی گروہ یا کسی سیاسی جماعت کی ملک کے اندر سرگرمیوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ کسی ملک کی حکومت کے موقف کو ہی ، اس قوم کا موقف سمجھتا جاتا ہے ۔ ان فضول جلسے اور جلوسوں پر وقت ضائع کرنے، ان کے ذریعے اپنی اپنی سیاسی دکان چمکانے اور اپنے لوگوں کی سڑکیں بندکرکے اپنے ہی لوگوں کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کی بجائے ہمیں اپنی حکومت پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کہ وہ متعلقہ فورمز پر ، متعلقہ ادارچاہئےوں کے ذریعے کشمیریوں کے کیس کو خالص انسانی حقوق، عالمی قوانین اور ان کے حق خودارادیت کی بنیاد پر اسی طرح پیش کرے جس طرح کہ کشمیری چاہتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے