مقبوضہ کشمیر میں آزادی صحافت پر پابندی

کشمیر پر بھارتی تسلط اب زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی حالیہ لہر فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ دھرتی ماں کی آزادی کے لیئے کشمیری تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں موجودہ تحریک نے اس بات کو بھی دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے کہ یہ تحریک خالصتاً کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے۔ ایک طرف کشمیری ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو دوسری جانب کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بھارتی بھی اس تحریک کو دبانے کے لیئے بد ترین اوراوچھے ہتکھنڈے استعمال کر رہا ہیں۔ بھارتی افواج کشمیریوں کی نسل کشی عورتوں کی بے حرمتی سے بھی آگے بڑھ کر بچوں تک کو اپنی ہوس اور گولیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔ کشمیری بچوں کے چہروں کو بگاڑنے والی بھارتی فوج نے اپنے ان جرائم کو دنیا سے چھپانے کے لیئے کشمیر کے میڈیا پر بھی بے جا پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

تقریباً ڈیڑھ ماہ سے کشمیر کے اخبارات پرنٹ نہیں ہو رہے۔ موبائل ، انٹر نیٹ سروسز پر پابندیوں کے ذریعہ سے کشمیری صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے۔انسانیت سوز مظالم کو چھپانے کے لیئے مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے جیسے حربے تو عام ہیں فرائض سے روکنے کے دیگر گھناؤنے حربے استعمال کیئے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں آزاد کشمیر خصوصاً مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی صحافی برادری نے دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی درندگی اور میڈیا پر پابندیوں کی طرف دلانے کے لیئے کنٹرول لائن تک مارچ اور کیرن میں دھرنا دینے اور احتجاج کرنے کا پرگرام ترتیب دیا ۔ سنٹرل پریس کلب مظفرآباد کے اجلاس کے دوران کیئے گئے اس متفقہ فیصلہ کو عملی شکل دینے کے لیے 13 اگست 2016 کو مظفرآباد اور آزاد کشمیر کے سیئنر صحافیوں پر مشتمل 50 رکنی قافلہ مظفرآباد سے نیلم کی جانب روانہ ہوا اس قافلہ میں تمام سینیئر ترین صحافی موجود تھے ۔

جن میں پریس کلب کے صدر سہیل مغل ،سرپرست دلپزیر عباسی ،سینٹرل یونین آف جرنلسٹس ضلع مظفرآباد کے صدر مسعود عباسی ،سیکرٹری جرنل رضا کاظمی ،عارف عرفی (جیو ٹی وی) سردار ذوالفقار ایڈیٹر روزنامہ سیاست، امیر الدین مغل سماء ٹی وی،آصف رضا میر ایکسپریس ٹی وی، ،حکیم کشمیری روزنامہ دومیل، اے ایف پی سے سجاد میرپریس فار پیس سے اورنگزیب جرال ،رپورٹر دنیا ٹی وی کاشف میر، ایم ڈی مغل دنیا ٹی وی ،مقبول اعوان ۔ جاوید چوہدری۔کشمیری صحافیوں سے اظہار یکجہتی کا عزم لیئے یہ قافلہ جب نیلم کے کاروباری اور سیاسی مرکز کنڈل شاہی پہنچا تو نیلم کی صحافتی برادری اپنے ان ساتھیوں کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھی۔منھاج القرآن ماڈل سکول کنڈل شاہی کے طلباء و طالبات نے ایم ڈی مسکین قریشی کی قیادت میں صحافیوں کے اس قافلے کا شاندار استقبال کیا طلبہ و طالبات نے سڑک کی دونوں جانب لائنیں بنا کر اور ہاتھوں میں بینر پکڑ کر اس قافلہ کو خوش آمدید کہا۔

اگلے مرحلہ پر قافلہ کا استقبال پائن ہلز سکول اینڈ کالج کے طلباء نے کیا اور جشن آزادی کی مناسبت قافلہ کے استقبال کے لیئے منعقدہ کالج کے پروگرام میں شریک ہو کر صحافیوں نے طللباء کی محبت کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ باہمی طور پر ان لمحات کا یادگار سمجھا گیا۔ کالج کی جانب سے محمد نواز ناصر نے اسٹیج سے استقبالیہ پیش کیا ۔جبکہ صحافتی برادری نے اپنے دورہ نیلم کی غرض و غایت سے طلباء کو آگاہ کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیئے برادر محترم آصف رضاء میر کا انتخاب کیا۔ جنہوں نے اپنے منفرد اورمخصوص انداز میں طلبہ و طالبات تک قومی امانت پہنچائی ۔کنڈل شاہی سے آٹھمقام روانگی سے پہلے نیلم کے پہلے نجی ادارے آئیڈیل سکول اینڈ کالج کے طلباء نے ایم ڈی حنیف اعوان اور پرنسپل خلیل انجم کی قیادت میں صحافیوں کے اس قافلہ کا استقبال کیا۔

اس قدر محبتیں سمیٹ لینے کے بعد یہ قافلہ آٹھمقام روانہ ہوا راقم کے رابطہ میں موجود نیلم TV کی ٹیم اور دیگر صحافی او ردیگر صحافیوں بنارس بلوچ،عادل شہزاد و دیگر نے استقبال کیا ،یہاں سے سارے صحافی اس قافلہ کا حصہ بن کر کیرن پہنچے جہاں کنٹرول لائن کے اس پار دریائے نیلم کے کنارے مظفرآباد اور نیلم کی صحافتی تاریخ کے اس سب سے بڑے قافلہ نے ایک احتجاجی ریلی نکالی اور بینرز اٹھا کر کنٹرول لائن پر کھڑے ہو کر اپنی جانوں کی پرواہ کیئے بغیر فلک شگاف نعرہ بازی کی ۔سیکورٹی اداروں کے منع کرنے کے باوجود ہمارے صحافی دوستوں نے اس اندازاور آواز سے بھارت مخالف اور مقبوضہ کشمیر کی عوام وصحافیوں کے حق میں نعرہ بازی کی کہ ارد گرد کے پہاڑ بھی لرز اٹھے ۔

اس قیامت خیز نعرہ بازی کو سن کر دریا کے اس پار مقبوضہ کشمیر کے باسی خصوصاً خواتین اپنے گھروں سے نکل کر کھیتوں میں جمع ہو گئیں جیسے وہ اظہار ہمدردی اور حمایت کا جواب دینا چاہتی ہوں۔اس احتجاجی نعرہ بازی کے دوران کسی بھی وقت ہمارے اوپر انڈیا کی جانب سے فائر آسکتا تھا جو کئی جانوں کے ضیاع کا سبب ہو سکتا تھا لیکن صحافیوں نے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی اور پروگرام کے مطابق اپنے احتجاج کو جاری رکھا اور ختم کیا ۔اس سارے منظر کو جب میں اپنی آنکھوں کے سامنے لاتا ہوں تو میرا یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ اب کشمیر کی آزادی کی منزل زیادہ دور نہیں کیوں کہ کشمیریوں کے درمیان خونی لکیر بے شک کھینچ دی گئی ہے لیکن کشمیریوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور اگر وہاں پر جان دینے والے موجود ہیں تو یہاں جان کی بازی لگانے والوں کی کمی نہیں اس بات کو آزاد کشمیر کے صحافی کیرن کے مقام پر ثابت کر چکے ہیں۔جب کشمیریوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں توکشمیریوں کو الگ کرنے والے اپنے مقاصد میں کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہونگے ۔

تحریک آزادی کشمیر میں کشمیر کے نوجوانوں کا گرم اور بہتا ہوا لہواس بات کا عکاس ہے کہ ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔جب جذبے جواں ہوں اور تحریک کو آنے والی نسلوں کے دلوں میں اسی آب وتاب کیساتھ جاگزیں کیا جاتا ہو تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت ایسی تحریک کو دبا نہیں سکتی۔اب وقت آن پہنچا ہے کہ بھارت اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کشمیر سے روانہ ہو اور کشمریوں کو اپنی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کامو قع فراہم کیا جائے وگرنہ کشمیر بھارت کا قبرستان ثابت ہوگا۔
یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے