احتساب سب کا

ہم پاکستانی سیاسی، مذہبی و لسانی جماعتوں اور گروہوں میں بٹے اور اپنے عقائد و نظریات پر بغیر کسی دلیل و منتق کے ڈٹے ہوئے ہیں. ہمارے لیے وہی گناہ، دھاندلی اور بدعنوانی ہے جسکا الزام مخالف جماعت یا گروہ پر ہو اور وہی ظلم ہی ظلم کے زمرے میں آتا ہے جو ہمارے چہیتے رہنماؤں اور جماعتوں پر ڈھایا گیا ہو. ہم مخالفت برائے مخالفت اور منفی ردعمل کے عادی ہو چکے ہیں. تحقیق سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا. جو الزام ہماری حمایت یافتہ جماعت یا گروہ پر لگایا جاتا ہے وہ محض الزام ہی ہوتا ہے، جسکا حقیقت سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ممکن ہی نہیں. ہماری نظر میں اُن الزامات کی "مخالفین کی سازش” سے زیادہ کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی الزام اس قدر واضح ہو کہ رد کرنا ممکن نہ رہے تو پھر ہمارے پاس کہنے کو یہی بچتا ہے کہ سب ہی چور ہیں تو پھر اپنے والے چور میں آخر برائی ہی کیا ہے؟ ہم کیوں نہ اسی کی حمایت کرتے رہیں؟ یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر بحث برائے بحث کا ایک طوفان سا بپا ہے. نیوز چینلز اور سوشل میڈیا سے لیکر نجی محافل تک ہر جگہ ایک تکرار ہے لیکن مسائل جوں کے توں اور اس تمام تر مباحث کا خلاصہ "میں سہی، تو غلط” سے زیادہ اور کچھ نہیں. "مکالمہ” کا فقدان اور "مناظرہ” کا رجحان تصادم کا سبب بنتا ہے جسکی وجہ سے مثبت نتائج برآمد نہیں ہو پاتے. ایسی بحث ماسوائے وقت کی بربادی کے اور کچھ نہیں.

ہمارا المیہ ہے کہ شخصیت پرستی میں ہم انتہاؤں کو چھو لیتے ہیں اور اس میں اکثر و بیشتر ضد و بےحسی، انا اور زات پات بھی شامل رہتی ہے تو پھر ایسی صورت میں اپنے موقف سے دستبرداری ہزیمت تصور کی جاتی ہے اور حقائق تک رسائی کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں.

حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ الزامات کو یکسر مسترد کرنے اور جوابی الزامات داغنے کے بجائے تحقیق کی جائے اور الزامات چاہے ہماری پسندیدہ شخصیات پر ہی کیوں نہ لگائے گئے ہوں اگر حقائق پر مبنی ہیں تو ناراضگی کا بھر پور اظہار کیا جائے تاکہ قیادت اس ردعمل کو تنبیہ سمجھے اور خود کو جوابدہ گردانتے ہوئے آیندہ کے لیے محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے جبکہ ہوتا اس کے بر عکس ہے اور ہمارا یہ منفی رویہ ان شخصیات کو مقدس گائے بنا دیتا ہے جو کہ انکی مادر پدر آزادی اور رعونت کا باعث بنتا ہے. بعض اوقات یہ اندھی تقلید اور جذباتی لگاو اس قدر گھناؤنی شکل اختیار کر جاتا ہے کہ کارکنان پُر تشدد جتھے کا روپ دھار لیتے ہیں اور اسلحہ اٹھانے سے بھی نہیں چوکتے جبکہ قائدین ایسی صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی مافیا کے سربراہ کی سی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور پھر ان جتھوں کو زاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں. اس عسکری طاقت کے زور پر یہ غیر محسوس طریقے سے معاشرہ میں ناسور کی مانند سرائیت کر جاتے ہیں، یوں نظام کھوکلہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ مضبوط سے مضبوط تر. اس مقام پر ان سے چھٹکارا پانا تقریباً ناممکنات میں سے ہوجاتا ہے. دہشت گردی، لینڈ مافیا، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ ایسے رویوں کا ہی شاخسانہ ہے.

دیکھیے غلط بہرحال غلط ہے، ہمارے انکار کرنے سے حقائق تبدیل تو نہیں ہوسکتے اور اگر ہم ایسا کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ پاتے تو یاد رکھیے گا کہ ہم بھی غلط ہی ہیں اور جرم کی حمایت میں گنہگار ہی گردانے جائیں گے.

کسی مجرم کے لئے شریکِ جرم ہونے کا گناہ سر لینا کسی بھی ذی شعور کی نظر میں حماقت ہی ہوگی. احتساب سے مستثنٰی کوئی بھی کسی بھی طور پر نہیں ہوسکتا چاہے کوئی ہمارا چہیتا ہی کیوں نہ ہو انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ ہر الزام کو ایک صاف و شفاف تحقیقاتی عمل سے گزرنے دیا جائے تاکہ حقائق سامنے لائے جا سکیں.

ریاست اہم ہے، شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں. یاد رکھیے، ہمارے معاشرے میں مخالفین کی مخالفت زیادہ تر ردعمل کی کیفیت ہی پیدا کر پاتی ہے اور اصل مدعا جوابی مخالفت کے شور میں کہیں دب سا جاتا ہے، ہاں مگر حمایتین کا استفسار تبدیلی کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہو سکتا ہے. غور کیجئے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کیجیے تاکہ ملک میں حقیقی تبدیلی آسکے. ترقی وخوشحالی ہم سب کا حق ہے اور شخصیات کے بت اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جنہیں گرانا ناگزیر ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے