پراکسی جنگیں،ریاست اورعوام

انسانوں کے مل کررہنے سے معاشرہ وجود میں آتا ہے اور مختلف معاشروں کا اجتماع ریاست کہلاتی ہے ۔ریاست کا وجود اسلام کا مرہون منت ہے۔ اسلام سے قبل بادشاہی اور قبیلائی نظام رائج تھا ۔ظہور اسلام کے بعد مدینہ کو پہلی ریاست کا درجہ حاصل ہوا ۔گو کہ اس سے قبل قدیم یونان میں (ایتھنز اور سپارٹا) محدود طرز کی ریاستوں کے شواہد ملتے ہیں لیکن ریاست مدینہ ایک منظم اور جدید ریاست کے طور پر سامنے آئی تھی . ریاست کن بنیادی اصولوں پر قائم ہوئی اس پرتفصیلی نظر دوڑاتے ہیں۔

اسلام کی آمد مکہ میں ہوئی مگر مسلمانوں نے ہجرت کر کے مدینہ میں ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور مدینہ کے ارد گرد کے قبائل کیساتھ دفاع کے حوالے سے باقاعدہ ایک معائدہ طے پایا ۔جنگ بدر میں مسلمانوں کیساتھ معائدہ کرنے والے قبائل نے اس کی خلاف ورزی کی جنگ ختم ہونے کے بعد سب سے پہلے ان قبائل کی باز پرس کی گئی اور اس کے بعد مدینہ کے اردگرد دیگر قبائل کو بھی اسلامی ریاست کا حصہ بنایا گیا ۔

تاریخ اسلام کے مصنف عبدالرحمان شوق کے مطابق جنگ بدر کے بعد مدینہ کے ارد گرد مقیم قبائل کے سامنے تین شرائط پیش کی جاتیں تھیں۔1)اسلام قبول کر لو ۔2)غیر مسلم ہی رہو اور جزیہ ادا کرو بدلے میں ریاست تمہارے جان و مال کا تحفظ کریگی اور تمہیں حملہ آوروں سے بچائے گی۔ 3)اگر ان دونوں شرائط میں سے کوئی ایک شرط قبول نہیںتو جنگ کے لیے تیار ہو جاو ۔

کئی قبائل مسلمان ہوئے ،متعدد نے جزیہ دنیا قبول کیا اور بعض جنگ پر آمادہ ہوئے ۔مدینہ کے قریب کے قبائل کو اسلامی ریاست کا حصہ بنانے کے بعد دور کے علاقوں میں بھی ہی پیغام بھیجا جاتا رہا ۔جو قبائل اسلام قبول کر لیتے انہیں اسلام کی تعلیمات کے لیے صحابہ کرام ؓ کو بھیجا جاتا تھا۔ کئی قبائل کے سر کش سرداروں نے کہا کہ جا کر اپنے نبی کو کہو کہ اگر ہم مسلمان ہو جائیں تو خلافت میں ہمارا حصہ کیا ہو گا ؟۔نبی کریم کی رحلت کے بعد کیاہمیں جانشین بنایا جائےگا؟۔ کئی قبائل اس لیے مسلمان ہوئے کہ ہم اپنی طاقت کے بل پرحضور اکرم کی رحلت کے بعد خلافت پر قابض ہو جائیں گے اور یہی وہ لوگ تھے جو بعد میں نبوت کے دعویدار بن کر سامنے بھی آئے ۔

اسلامی ریاست میں سب کو یکساں سزاو جزا کے عمل سے گزار گیا ۔ایک بار بااثر قبیلہ کی خاتون پر چوری کا الزام عائد ہوا ۔اسلام میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے اس سخت سزا پربااثرقبیلہ نے صحابہ کرامؓ کو حضور کرام کے پاس نرمی کی سفارش کے لیے بھیجا گیا مگر اللہ کے رسول نے قسم کھا کرکہا کہ اس خاتون کی جگہ میری بیٹی فاطمہ رض ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔

حضرت عمرؓ کے دور میں ایک خاتون تشریف لاتی ہیں اورصحابہ کرامؓ کی مجلس میں امیر المومنین کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ میرے گھر میں چوہے اور چونٹیاں نہیں آتیں۔ خاتون کی گفتگو سن کر سب پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے مگر حضرت عمر جواب دیتے ہیں کہ آپ گھر تشریف لے جائیں آپ کے گھر پہنچے سے پہلے ہی چونٹیاں اور چوہے آجائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی بیت المال کے عملے کو حکم دیا جاتاہے کہ اس خاتون کے گھر راشن اور کھجوریں پہنچائی جائیں ۔یہ ریاست کے تصور کی چند مثالیں تھیں ۔

اگرچہ اسلام نے ریاست کاایک بہترین فلسفہ فراہم کیا مگر اسلامی ریاست خلفائے راشدین کے دور میں ہی فتنوں کا شکار ہو گئی ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد تمام خلفاءکو قتل کیا گیا ۔جنگ جمل میں ہزاروں مسلمان آپس میں لڑ کر شہید ہوگئے۔ حضرت علیؓ کے بعد خلافت کی جگہ موروثیت نے لے لی ۔ اموی اور عباسی خاندانوں نے بادشاہت کو خلافت کا نام دیکر مسلمانوں پر حکومت کی اور آخر میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کیساتھ ہی برائے نام خلافت بھی اختتام پذیرہوئی ۔مکہ و مدینہ پر آل سعود نے قبضہ جما کر سعودی عرب کی ریاست قائم کی مگر دنیا کے تمام مسلمان آل سعود پر متفق نہیں ہیں۔

ریاست کیا ہے؟ اور ریاست کیسی ہونی چاہیے ؟ کی تھوڑی وضاحت کرتا چلوں۔ اسلام نے ریاست کا وثرن دیا ۔بادشاہت اور مورو ثیت کا خاتمہ کیا ۔خضور کرام کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓخلفیہ بنائے گئے جو مدینہ کی بجائے مکہ سے تعلق رکھتے تھے ،قبیلائی طاقت پر ان کا چناوعمل میں نہیں لایا گیا۔خلیفہ اول کا دور فتنوں کو ختم کرتے کرتے ہی گزر گیا۔

حضرت عمر فاروق نے ریاست کے ستونوں کو مزید پختہ کیا ۔کئی محکموں کی بنیاد رکھی، کئی ملک فتح کیے ۔جنگیں لڑیں مگر ان کے دور میں زکوات وصول کرنے والابھی کوئی نہیں رہا ۔اگر دیکھا جائے تو حضرت محمد نے ریاست کی بنیاد رکھی مگر حضرت عمرؓ نے ریاست کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔یہی وجہ ہے کہ آج یورپ نے خود پر عمر لاءکانفاذ کیا ہوا ہے ۔

اسلام نے شہریوں کو سب سے پہلے تحفظ دیا ۔حضور نے بھی مدینہ کے قبائل سے پہلا معائدہ بھی اسی حوالے سے کیا۔ اس کے بعد بادشاہی نظام یا مورثیت ختم کی ۔خلفائے راشدین کا کوئی بھی بیٹا ،بھتیجا خلفیہ نہیں بنایا گیا بلکہ تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنیاد پر شوریٰ نے انتخاب کیا ۔اسی نظام کی بنیاد پر آج امریکہ میں صدر کے چناو¿کےلئے پارٹی سطح پر امیدواروں کو سامنے لایا جاتا ہے اور بعدازاں ان میں سے موزوں امیدوار کو پورے امریکہ عوام اپنا صدر چن لیتے ہیں ۔

اس کے برعکس یہاں ریاست اور ریاستی ادارے ہی اپنے شہریوں کو پراکسی وار پر قربان کرتے ہیں ۔جہاد اور پراکسی وار میں بہت بڑا فرق ہے اسلام کے ابتدائی دور یعنی خلفائے راشدین کے دور میں جہاد صرف چند دنوں تک محیط ہوتا تھا کسی بھی علاقہ پر حملہ یا کسی قبائل سے لڑائی کےلئے صف بندی کی جاتی اور دو تین دن کی لڑائی کے بعد جنگ کا فیصلہ ہو جاتا تھا ۔پاکستان کی موجودہ جہادی پالیسیاں جہالت پر مبنی ہیں اوریہ صرف اور صرف پراکسی وار ہے جس میں عوام کو گمراہ کر کے مروایا جارہا ہے ۔

1947میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسے مذہب کا اکھاڑا بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔کئی مذہبی رہنمادنیائے اسلام کے متفقہ خلیفہ بننے کا خواب لیے دنیا سے پردہ فرما گئے۔ 1973کے آئین میں ملک کو تو باضابطہ اسلامی جمہوریہ قرار دیا ۔بھٹو حکومت ختم کرنے والے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے آئین کی اس پہلی شق کو اپنے اقتدار کے لیے خوب استعمال کیا ۔مخالفین پر کوڑے برسائے ۔جیلوں میں ڈالا۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا ۔امریکی جنگ کو جہاد کا نام دے کر ہزاروں غریبوں کے بچوں کو طالبان بنا کر اقتدار کی آگ میں بھون دیا ۔فوجی لاٹھی کے زور پر خود کو امیر المومنین بھی کہلوانے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہیں ۔

آج پوری دنیا میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار یہی امیر المنافقین جنرل ضیاءالحق ہیں ۔پوری دنیا کی عیسائی ریاستیں روس کےخلاف برسر پیکار تھیں اور مسلمان امن و سکون کا سانس لیے ہوئے تھے مگر جنرل ضیاءالحق نے عیسائیوں کی جنگ کو جہاد کانام دےکر روس کے ٹکڑے کیے اور وہی طالبان جنہیں امریکہ فنڈزدیتا تھا پوری دنیا میں دہشت گرد قرار پائے۔ روس کے ٹوٹنے اور امریکہ کے سپر پاور بننے کے بعد پوری دنیا کے مسلمان زیر عتاب ہیں ۔ذاتی زندگی میں شاید جنرل صاحب والی اللہ گزرے ہوں مگر امت مسلمہ کے لیے وہ کسی فرعون سے کم نہیں رہے ۔

ذوالفقار علی بھٹو کے لبرل دور میں ریاست نے دنیا کے تمام مسلمان ممالک کو متحد کرنے کی کوشش کی ۔معائدے طے پائے ،تمام مسلمان ممالک کی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا اور یہ اقدام ایک ریاست اور ایک لیڈر کا وثیرن ہے۔ دوسری جانب جنرل صاحب کے مذہبی دور میں مسلمانوں کے قتل عام کی بنیاد رکھی گئی ۔مذہب کے نام پر ،اسلام کے نام پر ،اللہ کے نام پر اور قرآن کے نام پر مسلمانوں اور انسانیت کو کاٹا گیا ۔کیامذہب اسلام اور قرآن انسانیت کے قتل عام کا حکم دیتا ہے؟

جنرل ضیاءالحق 11 سالہ آمرانہ عہدکے بعد اللہ میاں کے پاس پہنچ گئے مگر جانے سے قبل انسانیت کے قتل عام اور شر پھیلانے کے لیے بعض ادارے قائم کر گئے۔ یہ ادارے آج بھی اس فلسفہ پر عمل پیرا ہیں ۔جب کسی نے اس سوچ کیخلاف اقدام کا ارادہ کیا تو کبھی عمران خان ،کبھی طاہر القادری اور چوہدری اور کبھی ٹوانے ، کبھی پاک سرزمین پارٹی تو کبھی موو آن پارٹی نامی گم نام پارٹیاں بھاگ بھاگ کر اپنا کاندھا پیش کر دیتی ہیں ۔مسلمان اور انسانیت کے قتل عام کا جو سلسلہ جنرل بہادر سے شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے ۔

جنرل ضاءالحق کی ریاست اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ عوام نہیں ریاست بچائی جائے اور اس ریاست نے عوام کو مارتے مارتے آدھی ریاست گنوا دی ۔ ریاست اور ریاستی ادارے اپنے ہی شہریوں کو اغواءو لاپتہ کر رہے ہیں۔ہزاروں لاپتہ افراد کے لواحقین روزانہ سڑکوں پراحتجاج کر رہے ہوتے ہیں مگر کسی کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ۔جہاں عوام نہیں ہوگی تو وہ علاقہ ریاست کیسے کہلائے گا ۔ریاست عوام کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے، انصاف کے لیے ہوتی ہے،درندوں کو کسی ریاست کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

اس وقت پاکستان کی حکومت اور اداروں کو ملک کو ریاست بنانے کی ضرورت ہے .دنیا بھر میں پراکسی وار کے ٹھیکے بند کرنے کی ضرورت ہے اور ملک کے اندر بھی مذہب کے سویلین ٹھیکیداروں کے ٹھیکے منسوخ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ تمام ٹھیکے بند ہو جائیں گئے تو ملک میں امن بحال ہو جائے گا ۔ریاست کو ایسی ریاست بنایا جائے جہاں عوام امن و چین سے زندگی گزاریں ۔صرف مذہب کے ٹھیکے بند کرنے سے آدھاامن قائم ہو جائےگا ۔

یورپ نے اسلام کی تعلیمات پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے شہریوں کو سکھ دیا اور ہم مسلمان ہو کر ان تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کر کے شہریوں کو دکھ،پریشانی، بے چینی دیے ہوئے ہیں۔ پالیسی تبدیل نہ کی گئی تو ہمارا نام و نشان بھی مٹ سکتاہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے