فوجی عدالتوں سےسزا یافتہ 16مجرموں کی سزائےموت برقرار

[pullquote]اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول سمیت دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث 16 مجرموں کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں مسترد کردیں۔ [/pullquote]

16 دہشت گردوں نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے ہی تمام دہشت گردوں کی اپیلیں مسترد کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے رواں برس 20 جون کو مذکورہ کیسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنایا گیا۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ فوجی عدالتوں نے فیئر ٹرائل کے تمام ضابطے پورے کیے اور مجرموں کو وکیل دفاع فراہم کیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ قانون ہے کہ اعلی عدلیہ فوجی عدالتوں کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتی، درخواست گزاروں کے وکلاء نے ٹرائل میں ضابطہ سے انحراف کی نشاندہی نہیں کی، لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے ناکافی شواہد یا کمزور شواہد پر مبنی تھے، تمام شواہد اور سزائیں آرمی ایکٹ کے تحت دی گئی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالت کے کسی رکن پر بد نیتی ثابت نہیں ہو ئی اور نہ ہی فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں کسی قسم کی غیر قانونی بات ثابت ہوئی، مجرمان کے جرائم ایسے تھے جن کا ٹرائل صرف فوجی عدالت میں ہی ہو سکتا تھا۔

فوجی عدالتوں کے حکم کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے والوں میں آرمی پبلک اسکول پشاور، پریڈ لین اور بنوں جیل پر حملوں میں ملوث دہشت گردشامل تھے۔ جن دہشت گردوں کی اپیلیں مسترد کی گئیں ان میں قاری زبیر، حیدر علی، قاری ظاہر گل، عتیق الرحمان، تاج محمد، اقسن محمود، فتح محمد، شیر عالم، فیض محمد، محمد عربی، محمد غوری، طاہر محمود، فضل غفار، سعیدالزماں اور سخی محمود شامل ہیں۔

مذکورہ کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم سماجی رہنما اور سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ فوجی عدالتوں میں چلنے والے ان تمام مقدمات کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا جائے جن میں سزائے موت یا دیگر سزائیں دی گئی ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی دوبارہ سماعت ہونی چاہیے، تمام شواہد اور کیس ریکارڈ پیش کیا جانا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ملزم کو بھی اپنی مرضی کے وکیل تک رسائی کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجتے وقت وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ہر شہری کے برابری کے حقوق کو یقینی بنایا یا نہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015 کے تحت وفاقی حکومت کو کسی بھی مقدمے کو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے