نئی پاکستانی فلم ’تیری میری لو سٹوری‘ ایک رومینٹک کامیڈی ہے جو ایشا، رامس اور نائل کی محبت کے مثلث کے گرد گھومتی ہے اور اس مثلث سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو ایک مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
فلم کی ہدایات مشہور مزاحیہ اداکار و ہدایت کارجواد بشیر نے دی ہیں اور کہانی بھی جواد بشیر اور احمد عبدالرحمان کی تحریر کردہ ہے۔ فلم کی اہم کاسٹ میں محب مرزا، عشنا شاہ، عمر شہزاد، محسن عباس حیدر، احمد عبدالرحمان، عظمیٰ خان، لیلیٰ زبیری اور سلمان شاہد شامل ہیں۔
تیری میری لو سٹوری فلم کی کہانی سے لے کر سکرپٹ تک، مکالموں سے لے کر اداکاری تک، اور کیمرے سے لے کر دیگر تکنیکی باریکیوں تک، ہر اعتبار سے ایک انتہائی کمزور فلم ہے۔
فلم دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جواد بشیر کے تحریر کردہ کئی سٹ کامز کو ڈھائی گھنٹوں پر محیط کردیا گیا ہے۔ فلم کی کہانی میں کوئی ربط نہیں ہے ایک منظر کا دوسرے منظر سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ فلم میں ساؤنڈ یعنی آواز پر کوئی کام نہیں کیا گیا کیونکہ آدھی سے زیادہ فلم میں اداکاروں کے ڈائیلاگ سے زیادہ پس پردہ موسیقی کی آواز سنائی دے رہی ہے جو یقینا دیکھنے والوں پر گراں گزرتی ہے۔
فلم میں عشنا شاہ نے اور محب مرزا نے بالترتیب ایشا اور نائل کے مرکزی کرداروں میں اچھی اداکاری کی لیکن کمزور ڈائیلاگ، بے تکے کیمرہ ورک اور خراب ساؤنڈ کی وجہ سے ان کی ساری محنت ضائع ہوتی نظر آئی۔
عمر شہزاد ایک معروف ماڈل ہیں لیکن فلم میں نووارد ہونے کی وجہ سے اداکاری کے معاملے میں ان میں کافی جھجک نظر آئی۔ البتہ عظمیٰ خان اور محسن عباس حیدر نے مناسب اداکاری کی۔
فلم میں جواد بشیر بھی ایک اغوا کار کے روپ میں موجود ہیں لیکن وہ کرادر اچانک ہی فلم سے کس طرح غائب ہوگیا، دیکھنے والوں کو الجھا گیا۔ ایک خاص انٹری جواد بشیر کے میوزیکل بینڈ ’ڈاکٹر اور بلا‘ کے رکن اور مشہور مزاحیہ اداکار فیصل قریشی کی بھی ہے جو اپنے اشتہاروں کی طرح اچانک نمودار ہوتے ہیں اور ایک یا دو جملے ہی ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔
کیمرہ دیگر پاکستانی فلموں کی طرح کلوز اپس لینے پرمرکوز رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم میں تمام اداکار بہت حسین نظر آئے ہیں لیکن فلم کی کہانی کی مناسبت سے کیمرے کا استعمال کرلیاجاتا تو مناسب تھا۔
صرف فلم کی موسیقی ہی تکنیکی اعتبار سے بہتر ہے لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ہدایت کار نے ان گانوں کو کہاں استمال کیا ہے اور کس طرح فلمایا ہے اور جواد یہاں پر بھی کوئی خاص کام نہ کرسکے۔ فلم کے ڈانس نمبرز کو کمزور کیمرہ ورک نے برباد کرکے رکھ دیا۔
جواد بشیر یقینا ٹیلی ویژن کی دنیا کاایک بڑا نام ہیں جو سٹ کام اور اشتہاری فلمیں بنانے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں لیکن شاید ان کو یہ بات ابھی سمجھنا ہوگی کہ ۱۸ منٹ کے سٹ کام لکھنا اور ایک فلم تحریر کرنا دوبالکل مختلف اصناف ہیں۔ اور ڈھائ منٹ کے اشتہار اور ڈھائی گھنٹے کی فلم میں بہت فرق ہوتاہے۔