عشق الہی کا سب سے بڑا گھرانہ

آج ۹ ذی ا لحجہ ۱۴۳۷ھ کا مقدس دن ہے۔ ہر سال کی طرح لاکھوں انسان ریگزارِ عرب کے بے برگ وگیاہ وادی میں اپنے خدا کوپکارنے،اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور عشقِ الہی میں بدمست ہونے کے لئے میدانِ عرفات میں جمع ہونگے اور یوں آج کرہ ارض پر ایک بار پھر عاشقانِ خدا کا سب سے بڑا گھرانا آباد ہوگا۔

آج خدا کی خلقت اپنے سارے امتیازات ، سارے خاندانی وقار ، سارے رعب و دبدبے، اپنی ساری طاقتیں اور اپنی ساری بڑائیاں بھلاکر اس ربِ کائنات کے آگے عجز و انکساری کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ جس خدائے بزرگ و برتر نے چودہ سو برس پہلے اسی مقام پر ایک امی اور یتیم کی زبانی انسانی وقار، انسانی آزادی ،خداپرستی اور انسان دوستی کا پہلا بڑا اور عالمگیر منشور دیا۔جس نے نسلِ انسانی کا بکھرا ہوا شیرازہ یکجاکرکے نسلِ انسانی کو محبت و اخوت کے رشتے میں باندھ کر ایک نیا گھرانہ دیا۔اس نے صرف ملکوں اور جغرافیے کے فاصلے کم نہیں کئے بلکہ نفرت اور دشمنی کی آگ میں جلتے ہوئے دلوں میں محبت و بھائی چارے کی نئی روح پھونک دی۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں دنیا کے سب سے بڑے انسان نے ملکوں کو اکٹھا ،قوموں کو جوڑ نے ا ور زبان و مکان کی ساری دوریاں دور کرنے کا اعلان کردیا۔جہاں خداوندِ قدوس نے اپنے نبی کی قیادت میں گورے کو کالے کے ساتھ، بادشاہ کو فقیر کے ساتھ، غریب کو غنی کے ساتھ، بے آسراؤں کوطاقتوروں کے ساتھ ایک ہی لباس ، ایک ہی وضع و لباس میں ، تمام عقلی اور فکری اختلا فاتسے بے نیاز ایک لڑی میں اس طرح پِرودیاکہ انسانیت اپنے اصلی روپ میں سارے شیطانی امتیازات سے بے خبر ہوکرنظر آگئی۔

آج پھر اولادِ آدم اسی سنت ، اسی عہد اور اسی عالمگیر انسانیت کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ جسکا درس اس گھر کا مالک محمد عربی ﷺ کی زبانی دنیا کو دے کر گئے۔ کہ تم سب ایک ہو۔ ایک باپ کی اولاد ہو۔ یہ امتیازات، برتری ، طاقت و قوت اور نفرت و عداوت کے بُت تمھارے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ خدا کی نظر میں تم سب ایک ہو۔ اور تم سب اسی ایک ربِ کائنات کا گھرانہ ہو۔ آج میدانِ عرفات میں اسی عہد کی تجدیدِ وفا ہورہی ہے۔یہ دیکھوہندوستانیو کا گروہ جا رہاہے۔ اور اسکے ساتھ ہی آگے پاکستانی حجاج کا جتہ اللہ کی یاد میں مست بڑھ رہا ہے۔یہ دائیں طرف کچھ قد پست جاوی کھڑے ہیں۔جبکہ اسکے آگے چینی مسلمانوں کی منگولین صورتیں دکھائی دے رہی ہیں۔

اے میرے خدا!! یہ کیا ہے۔کہیں ترکستانی ٹوپی ہے اور کہیں افغانوں کی بڑی بڑی پگڑیاں اپنے طرف متوجہ کر رہی ہیں۔یہ دیکھو یمنی عربوں کا ایک گروہ تکبیر کے غلغلوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اور یہ کیا اس جانب حبشی بھی اللہ کی یاد میں بد مست کھڑے نظر آرہے ہیں۔ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کہ انسانی اجتماع، اخوت اور صبر و استقامت کا یہ منظر دنیا میں کہیں اور نظر آسکتا ہے؟؟سوچ و بچار کے دریچوں میں گم یہ احساس دل و دماغ کے گوشوں کو کُرید رہی ہے کہ وہ کون ہے جسکے ہاتھوں میں خدا کے اس عاشق گھرانے کا سِرا ہے۔؟تو لا محالہ یہی جواب ملتا ہے۔ کہ اسلام کے ہاتھ میں۔۔۔ اے خدا آج تیرے ان بندوں کی عاشقی دیدنی ہے۔ آج انکا تیرے گھر میں اپنے آپ کو فنا کرکے آپ سے گریہ و زاری کرنا قابلِ رشک ہے۔ انکو دیکھ کر عقل پریشان اور ذہن سوچ و فکر میں ہے کہ یہ کس پاک بستی کے مکین ہیں۔یہ کونسے پاک لوگ بلند اخلاق کے مالک اللہ کے گھر میں اکھٹے ہوئے ہیں؟ دل نہیں مانتا کہ یہ اسی زمین کے باسی ہیں جسکو اسی انسان نے اپنی فرعونیت اور رعونت سے آگ و خون سے بھر دیا ہے اور اسکا سینہ آج صرف انسان کی بربادیوں اور ہلاکتوں کے داستان سننے اور دیکھنے کے لئے رہ گیا ہے۔

کیا عاشقوں کا یہ جمِ غفیر اسی انسانی آبادے کا ایک حصہ ہے۔ جو آج درندگی اور بربریت میں درندوں کے مسکن اور سانپوں کے غاروں سے بھی بدتر ہے؟؟ اے دوجہانوں کے رب!!! کیا یہ اُسی دنیا کے باسی ہیں جہاں انسان ایک دوسرے کو اس طرح چیر پھاڑتا ہے کہ حیوانات کو بھی دیکھ کر انسان کی درندگی سے شرم آجاتی ہے؟؟؟ کیا یہ اسی دنیا کے باسی ہیں جنہوں نے اپنے خالق اور رب سے یکسر منہ موڑ لیا ہے؟؟اور اپنے معبود سے ایسے بیگانے ہوگئے ہیں کہ انکی بستیوں اور آبادیوں میں خدا کے نام کے لئے انکے پاس وقت ہی نہ رہا۔ اے میرے خدااگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ آج تیرے گھر ، تیرے دربار میں یہ کون لوگ ہیں ۔ جنکی زبانیں آپکی یاد سے تر ہیں، جنکے جبینوں کی عاجزیاں آپکی رضا ڈھونڈ رہی ہیں۔ جنکے آنکھوں کے آنسو آپکے عشق میں بہنے کو بیقرار ہیں ۔ جنکے دلوں کی دھڑکنیں آپ سے محبت کے اظہار کے لئے تڑپ رہی ہیں ۔

اے خدا!! آج یہ کون ہیں جن میں قدوسیوں سی معصومیت بھر گئی ہے، یہ کون ہیں جن میں فرشتوں کی سی نورانیت اور سچے انسانوں کی سی محبت جھلک رہی ہے۔ نسلی تعصبات کی آگ میں دنیا جل رہی ہے پر یہ تیرے عاشق ہیں کہ انکو رنگ و نسل کی پرواہ ہی نہیں سب ایک جگہ ، ایک لباس، ایک رنگ ڈھنگ میں ایک ہی مقصد کے ساتھ ا ور ایک ہی صدا کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جڑے ہیں جیسے ایک ماں کی اولاد بھی نہیں جڑتی۔سب آپ کو پکار رہے ہیں۔سب آپکی رضا اور خوشنودی کے لئے سرگرداں اور پریشاں ہیں۔ یہ آج سب تیری توجہ کے طلبگار ہیں ۔ تیرے در کے گداگر ہیں۔ تیری چاہت اور تیری پرستش انکا مطلوب ہے۔آج جبکہ ہر طرف عمل کا محور نفس و ابلیس ہے یہ تیری محبت میں ۔۔ صرف عشقِ خدا کا دیا لئے دیوانوں اور بے خودوں کی طرح یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔یہ بالکل ایک نئی اور الگ بستی ہے۔ جو عاشقانِ خدا کے زخمی دلوں اور قربِ الہی میں تڑپتے روحوں کا مسکن ہے۔ ؁یہاں صرف گریہ و زاری ہے۔ آنسوؤں کے سیلاب ہیں جو تیری محبت اور عشق میں بہتے ہیں۔یہاں صرف ندامت اور آہ و بکاء ہے جو تیرے سامنے اپنے اعمال کو لے کر تیرے عاشقوں کے دلوں سے نکل رہی ہے۔ اے میرے ر ب آ ج یہاں دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی صدائیں ہیں جو پاک اور مقدس دعاؤں کی صورت میں تیرے گھر میں بلند ہوہی ہیں اور ہزاروں سال پیشتر کے عہدِ الہی اور راز و نیاز عبد و معبود کو تازہ کر رہی ہیں

لبیک لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے