علمائے کرام کی "منطق”

کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ مولوی صاحبان کو خراب (متشدد) کرنے میں ارسطو کی منطق کا بہت عمل دخل ہے۔ مدارس میں یہی منطق پڑھائی جاتی ہے۔
(منطق ایسے قوانین کا علم ہے جن کو لاگو کرنے سے ہمارا ذہن غور و فکر میں غلطی سے بچ جاتا ہے، گویا منطق صحیح فکر کے ضوابط بتاتی ہے۔ اِس کی دو قسمیں ہیں، استخراجی منطق اور استقرائی منطق۔ ارسطو نے استخراجی منطق کی طرح ڈالی، وہی مدارس میں داخل ہے)

ارسطو کی منطق میں زیادہ زور استخراج پر دیا جاتا ہے کہ کس طرح دو قضیوں (جملوں/دعوں) کو ترتیب دیا جائے تو نتیجہ درست نکلے گا، اِس ترتیب کی چار صورتیں گنوائی جاتی ہیں۔ ایک صورت کی مثال دیتا ہوں، جیسے زید انسان ہے۔ یہ ایک قضیہ (جملہ/دعویٰ) ہے۔ ہر انسان فنا ہونے والا ہے، یہ دوسرا قضیہ (جملہ/دعویٰ) ہے۔ اب دونوں کو ملاتے ہیں
زید انسان ہے (دعویٰ اول، اِسے صغریٰ کہا جاتا ہے)
ہر انسان فنا ہونے والا ہے (دعویٰ ثانی، اِسے کُبریٰ کہا جاتا ہے)
نتیجہ: زید فنا ہونے والا ہے۔

ارسطو کی منطق "استخراجی” (ڈیڈیکٹِو) کہلاتی ہے، اِس کا سارا زور قیاس (استخراج) کی ترتیب پر ہوتا ہے، یہ مواد سے بحث ہی نھیں کرتی کہ وہ درست ہے یا نھیں۔ اِس منطق میں دونوں دعوں کی صداقت کو جانچنے کا مرحلہ نھیں آتا۔

قضایا (جملوں/دعوں) کی صداقت اور صحت کی جانچ پڑتال "استقرائی” (اِنڈیکٹِو) منطق کا کام ہے۔ مولوی صاحبان نے "استقرائی منطق” نھیں پڑھی ہوتی۔ یہ صرف ارسطو کی "استخراجی منطق” کو سمجھے ہوتے ہیں، بس جیسے تیسے دو باتیں سُنیں، اُن کی صحت جانچے بنا، خود ہی نتیجہ نکال لیا، گویا خود ہی مدعی، خود ہی منصف۔

ایک اور مثال دیتا ہوں، زید شرابی ہے۔ (پہلا دعویٰ) ہر شرابی فاسق ہوتا ہے۔ (دوسرا دعویٰ) ایسے میں ارسطو کی منطق بتاتی ہے کہ اِن دو باتوں کو جوڑیں
زید شرابی ہے (صغریٰ)
ہر شرابی فاسق ہے (کُبریٰ)
نتیجہ: زید فاسق ہے، نکلتا ہے۔

اب دونوں دعوں کی صحت اور چھان پھٹک کی ذمہ دار ارسطو کی منطق نھیں۔ یہ کام استقرائی منطق کا ہے، جس سے علماء کرام ٖغافل ہوتے ہیں، ایسے میں دعوں کی چھان پھٹک کیے بغیر، وہ اندھا دھند اِنھیں جوڑ کر خود ہی نتیجے نکال کر فتاویٰ داغتے ہیں۔
میں نے جب بھی کسی کے خلاف فتاویٰ دیکھے، فوری ذہن میں آیا کہ یہ سب ارسطو کی منطق کا کیا دھرا ہے کہ بس مولوی صاحب کے کان میں کوئی بھنک پڑی تو اُنھوں نے فوری دوسرا دعویٰ نتھی کیا اور نتیجہ نکال لیا۔

چند مزید مثالیں:
زید قادیانی ہے (پہلا دعویٰ، مولوی صاحب نے اِس کی تصدیق ہرگز نھیں کرنی)
قادیانی کافر ہیں (دوسرا دعویٰ، مولوی صاحب نے اِس کی بھی تصدیق نھیں کرنی)
نتیجہ: زید کافر ہے۔

زید نے کدو کی توہین کی ہے (پہلا دعویٰ)
کدو کی توہین کفر ہے (دوسرا دعویٰ، کیونکہ کدو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پسند تھا۔ یہ دعویٰ بھی مولوی صاحب کی اپنی اختراع یا سُنا سُنایا ہے)
نتیجہ: زید کافر ہے۔

زید نے صحابی کی توہین کی/ گالی دی (پہلا دعویٰ، اِس کی ویری فیکیشن بھی نھیں کی گئی)
صحابی کی توہین کفر ہے (دوسرا دعویٰ، اس کی تصدیق بھی نھیں کی گئی)
نتیجہ: زید کافر ہے۔

اِن مثالوں میں چھ دعوے تھے۔
1- زید قادیانی ہے
2- قادیانی کافر ہیں
3- زید نے کدو کی توہین کی ہے
4- کدو کی توہین کفر ہے
5- زید نے صحابی کی توہین کی
6- صحابی کی توہین کفر ہے

اِن کے صحیح ہونے یا غلط ہونے کی بحث، ارسطو کی منطق میں کی ہی نھیں جاتی۔ قضایا (دعوں) کی صحت و عدمِ صحت کی بحث، استقرائی منطق میں کی جاتی ہے، جو مدارس میں نھیں پڑھائی جاتی۔ گویا مولوی صاحبان ارسطو کی منطق پڑھ کر، خود مدعی، خود ہی منصف بننے کی روش پر گامزن ہوجاتے ہیں، اپنے دعوں کے صحیح یا غلط ہونے کے حوالے سے اُنھوں نے منظم سائنسئ انداز میں تحقیق نھیں کی ہوتی، اُن کا زور صرف جملوں کو ترتیب دینے پر ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے