ادارے اپنی آئینی حدودوقیود میں رہ کرکام کریں،چیف جسٹس

[pullquote]چیف جسٹس پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ ادارے اپنی آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں، دائرہ کار میں رہ کر ہی گڈ گورننس ممکن ہوگی، آئین میں تمام اداروں کے دائرہ کارکی وضاحت کی گئی ہے، عدالت اپنے آئینی ذمہ داریوں پر آنکھ بند نہیں رکھ سکتی۔ [/pullquote]

سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اداروں میں ٹکراؤ ہے، اس تاثر کو زائل کرنے کے لیےعدلیہ اور مقننہ کے درمیان مکالمہ کرایا گیا۔ بدلتی صورتحال کے پیش نظر تمام ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ وکلابرادری اور عدلیہ بھی دہشت گردی سے متاثر ہو رہے ہیں، انصاف کی فراہمی کے اداروں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اسے تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔


بدقسمتی سے بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردعناصر کی حمایت کرتی ہیں، ہمارا ملک جس دہشت گردی کا شکار ہے، اس میں بیرونی ہاتھ اور اندرونی حمایت شامل ہوتی ہے، کراچی اور بلوچستان بدامنی کیس میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منصفانہ ریاست کے لیے ہر شخص کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہوگا، کرپشن کے خاتمے سے عدالت پر بوجھ کم ہوگا اور لوگوں کو غیر ضروری عدالتی چارہ جوئی سے نجات ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم کا مقصد سیکولر پاکستان بنانا نہیں تھا، پاکستان بنانے کا مقصد تھا کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر حقوق ملیں، آئین پاکستان مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے، تمام ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو کرپشن اور بےامنی کا خاتمہ ہوگا۔ عدالت اپنے آئینی ذمہ داریوں پر آنکھ بند نہیں رکھ سکتیں، جہاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو، ضروری ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے، اسی بات کو مدنظر رکھ کرعدالت نے گذشہ سال چند معاملات پر ازخود نوٹس بھی لیے۔ تقریب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتراوصاف، سپریم کورٹ بار کے صدر علی ظفر اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی خطاب کی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے