سیاسی نوٹنکی

بقرعید ختم ہوتے ہی سیاسی نوٹنکی یکایک پھیکی پڑ گئی، عمران خان رائیونڈ جانے کے ارادے پر اٹل ہیں، طاہر القادری سیاسی قربانی کا ذکر کرتے کرتے رائیونڈ کے بجائے لندن جا پہنچے اور تحریک انصاف کو گہرے صدمے سے دوچار کر گئے، وزیر اعظم اقوام متحدہ اجلاس کیلئے نیویارک میں موجود ہیں، پانامہ لیکس پر اپوزیشن کا بڑھتا شدید سیاسی دبائو یکایک ختم ہوتا نظر آ رہا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ وزیر اعظم اور انکے خاندان پر اپوزیشن الزامات کا ٹھوس جواب ن لیگ کے پاس موجود ہی نہ تھا نہ ہی کوئی حکمت عملی نظر آئی، بس تین رہنمائوں پر مشتمل سرکاری نوٹنکی جوابی الزامات اور جگتوں سے لیس کسی مومن کیطرح بے تیغ کشتوں کے پشتے لگاتے ضرور نظر آتے تھے

ن لیگ کو تحریک انصاف کا شکر گزار ہونا چاہئیے کہ رائیونڈ جانے کے فیصلے نے پانامہ لیکس پر اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے غبارے میں پینتیس پنکچروں سے بڑا پنکچر کر ڈالا، پانامہ لیکس پر بڑھتا دبائو نہ صرف حکومت کیلئے ناقابل برداشت ہو چکا تھا بلکہ ن لیگ کے پاس سیاسی نوٹنکی کے علاوہ الزامات کا کوئی معقول جواب بھی نہ تھا، ایک وقت تھا جب حکومت کی ان ہائوس تبدیلی کی باتیں ہو رہی تھیں، کئی وفاقی وزرا کے نام بطور متبادل وزیر اعظم پیش کیے جا رہے تھے، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی تحریک عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں، بلاول بھٹو اور عمران خان کو ایک کنٹینر پر کھڑا کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں، مگر تحریک انصاف کے رائیونڈ فیصلے نے اپوزیشن کو منتشر کر ڈالا، پانامہ لیکس پر حکومت کی پریشانی کوئی ڈھکی چھپی نہ تھی، اپوزیشن کے الزامات کے جواب میں تین رہنمائوں پر مشتمل سرکاری نوٹنکی جوابی الزامات تو عائد کرتی تھی وزیر اعظم اور انکے خاندان پر الزامات کے جواب میں جگتیں بھی سناتی تھی مگر انکے پاس نہ کوئی حکمت عملی تھی نہ کوئی دلیل، آج حکومت اور ن لیگ اس دبائو سے آزاد ہو چکی ہے مگر اسکا کریڈٹ تحریک انصاف کو نہ دینا بڑی نا انصافی ہو گی، نوجوان نسل کیلئے شاید نوٹنکی کا لفظ نامانوس ہو، فلم اور ٹی وی آنے سے پہلے شہر شہر گائوں گائوں فنکار تماشا دکھایا کرتے تھے، جسے آپ ڈرامہ بھی کہ سکتے ہیں، کسی چوراہے یا چوپال پر اسٹیج سجایا جاتا تھا اور لوگ جمع ہو کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے نوٹنکی یا منڈلی کا لفظ اب متروک ہو چکا ہے مگر یہ سلسلہ سیاسی چوپالوں میں اب بھی جاری ہے اور لوگ لطف اندوز بھی ہوتے ہیں

فی الحال معاملہ کچھ یوں ہے کہ رائیونڈ کا رخ کرنے پر تحریک انصاف سیاسی تنہائی سے دوچار ہے، کزن ڈاکٹر طاہر القادری بھی رائیونڈ نہ جانے کے اعلان کے بعد لندن روانہ ہو چکے، پانامہ لیکس پر ساتھ کھڑی دیگر جماعتیں بھی رائیونڈ جانے سے متفق نہیں، پیپلز پارٹی صاف انکار کر چکی ہے جماعت اسلامی بھی رضامند نہیں، عمران خان ایک دو بار نہیں بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ رائیونڈ ضرور جائینگے جبکہ دیگر جماعتوں کا موقف ہے کہ سیاست میں گھروں تک جانے کی روایت تباہ کن ثابت ہو گی، تحریک انصاف کو اصل دھچکا اس وقت لگا جب طاہر القادری نے رائیونڈ جانے سے انکار کیا، طاہر القادری جتنی تیزی کیساتھ سیاسی منظر پر ظاہر ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ تیزی کیساتھ اوجھل بھی ہو جاتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک شعلہ بیاں مقرر اور پرجوش سیاسی قائد ہیں مگر یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب کیا کریں گے شاید ان کو بھی نہیں، تحریک انصاف شروع ہی سے پیپلز پارٹی پر مکمل بھروسہ کرنے پر تیار نہیں، ایک وقت یہ بھی آیا کہ مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری اور خورشید شاہ کا موقف پیچھے رہ گیا اور حکومت مخالف جذبات کیساتھ بلاول اور اعتزاز فرنٹ پر آ گئے، بلاول اور عمران کے ایک ہی کنٹینر پر کھڑے ہونے کی باتیں ہونے لگیں، مگر رائیونڈ جانے کے فیصلے نے پوری احتجاجی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچا دیا، تحریک انصاف کو یہ سیاسی غلطی کتنی بھاری پڑیگی شاید اسکا فیصلہ ابھی کرنا مناسب نہیں

دوسری جانب کراچی کی سیاست میں بھی ایم کیو ایم رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کی فلمی انداز کی گرفتاری اور رہائی ایک ہلچل ثابت ہوئی، ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو خواجہ اظہار کی گرفتاری بھاری پڑ گئی، رائو انوار پراسرار صلاحیتوں کے مالک ہیں اس سے پہلے بھی کئی بار معطل ہوئے، سپریم کورٹ کے سخت ترین احکامات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں، مگر پراسرار طور پر نہ صرف ہر بار بحال ہوتے ہیں بلکہ ضلع ملیر میں تعینات ہوتے ہیں انہیں ضلع ملیر کا آئی جی بھی کہا جاتا ہے چونکہ وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے کچھ اوپر کی چیز تصور کیے جاتے ہیں اسلئے ماضی میں پولیس اختیارات سے تجاوز کی شکایات نظر انداز کی جاتی رہیں مگر اس بار معاملہ گلے پڑ گیا، رائو انوار نہ صرف خود معطل ہوئے بلکہ دو مزید پولیس افسران کو بھی لے ڈوبے، اول تو یہ کہ اس بار دھواں دھار انٹری نے سندھ حکومت کے سامنے کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ اب وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نہیں بلکہ مراد علی شاہ ہیں، معاملہ اتنا ہی سنگین تھا کہ وزیر اعظم کو بھی وزیر اعلیٰ سندھ سے رابطہ کرنا پڑا، بہرحال اس کے باوجود کچھ بعید نہیں کہ رائو انوار پھر بحال ہو جائیں اور تعینات بھی ملیر میں ہی ہوں

اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا دم خم ختم ہونے کے بعد حکومت کو کافی ریلیف ملا ہے، تحریک انصاف سیاسی محاذ پر تنہا کھڑی ہے تو پیپلز پارٹی کی تمامتر توجہ سندھ پر مرکوز ہے جہاں مراد علی شاہ ایک متحرک قائد ثابت ہو رہے ہیں، ایم کیو ایم اپنے مسائل سے جنگ لڑ رہی ہے تو ق لیگ اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے، اے این پی اور جمیعت العلمائے اسلام (ف) اتحادیوں میں شامل ہیں، جماعت اسلامی ایوان میں اتنی مستحکم نہیں کہ حکومت کیلئے مشکل پیدا کر سکے، تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ موجودہ سیاسی تناظر میں حکومت کیلئے کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آتا، سیاسی طور پر دیکھا جائے تو آزاد کشمیر اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی ن لیگ کو استحکام بخشا ہے، پانامہ لیکس کا غبار بیٹھنے کی صورت میں ن لیگ کو اگلے الیکشن تک کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آتی، 2017 شروع ہوتے ہی سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے تیاریوں میں مصروف ہو جائیں گی، اگر ن لیگ کی حکومت ترقیاتی منصوبے اور خاص طور پر بجلی کی منصوبے آئندہ سال مکمل کر لیتی ہے تو تمامتر الزامات اور ناقص کارکردگی کے باوجود واضح اکثریت حآصل کرنا کچھ زیادہ مشکل نہ ہو گا، اگر ایسا ہی ہوا تو یقین جانیں ن لیگ کو حکومت اسلئے نہیں ملیگی کہ وہ اہل ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہو گی کہ اپوزیشن ان سے بھی زیادہ نااہل ہے

میں کوئی سیاسی تجزیہ کار نہیں، سیاسی نجومی بھی نہیں صرف ایک صحافی ہوں مگر اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ سیاسی نوٹنکی جاری ہے، سرے محل، این ایل سی اسکینڈل، رینٹل پاور پروجیکٹ، ایس جی ایس کوٹیکنا، لاہور ڈی ایچ اے اسکینڈل اور نجانے کتنے معاملوں کی طرح سنگین کرپشن کے یہ الزامات بھی بھولی بسری داستان بن جائینگے، بدعنوانی کے قبرستان میں پانامہ لیکس کی بغیر کتبے کی ایک قبر کا اضافہ ہو جائیگا، رہی بات سیاسی نوٹنکی کی تو یوں جانیں کہ پورا ملک چوپال ہے عوامی جذبات سے سرشار سیاسی فنکاراپنے جوہر دکھا رہے ہیں، بہترین کہانی، بہترین ڈائیلاگ اور پرجوش نعروں سے سجی سجائی سیاسی نوٹنکی اسی طرح جاری و ساری رہیگی اور بیس کروڑ تماشائی صرف تالیاں بجاتے رہینگے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے