"اسکی”آخری تحریر

اس نے غور سے تمام افراد کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا اس وطن میں بسنے کیلئے آپ کا جاری کردہ سرٹیفیکیٹ لینا ضروری پے؟ جواب میں پے درپے تھپڑ رسید ہوئے. اس کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا گھر پر بچے اور بیوی پریشان تھے. اس نے فورا کہا حکم کیجئے کیا کرنا ہے؟

جواب ملا تم مٹی کے غدار ہو بیرونی ایجینسیوں سے تعلق رکھتے ہو. اور پھر اس کو ایک بوری میں بند کر کے ایک سائڈ پر رکھ دیا گیا. اس کا سانس لینا مشکل تھا لیکن شاید صیاد نے کچھ دستخط رکھے ہوئے تھے اس لیئے اس کی سانسیں چل رہی تھیں.اس کی سماعتوں میں دوستوں اور کولیگز کے جملے بار بار گردش کر رہے تھے کہ یہ اندھوں بہروں اور گونگوں کا معاشرہ ہے اس لیئے چپ کر کے کسی کے زیر سایہ ہو جاو اور پھر لکھو.لیکن شاید بہت دیر ہو چکی تھی.

اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ بہت سے افراد کو علم ہے کہ اسے دھمکیاں دی جا رہی تھیں اس کے کالمز ایک خاموش سنسر شپ کی زد میں آ رہے تھے.لیکن پھر کچھ گھنٹے بیتے اور اسے برف کی سل پر برہنہ لٹا دیا گیا. صیاد آئے اور حکم جاری کیا کہ اس کے بچوں کو بلایا جائے.یہ ایک تکلیف دہ تھا جب اس کے بچے چیخ چیخ کر پکار رہے تھے اور وہ شرمندگی کے مارے کچھ نہیں کہ سکتا تھا.

اسے محسوس ہوا کہ شاید یہ آخری ساعتیں ہیں اور اسے پروردگار کے سامنے حاضری دینی ہے اس نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا.

آنکھ کھلی تو چند خوش باش لوگوں کو اطراف میں پایا جنہوں نے اس رویے اور اغوا کی مزمت کی اور اسے بتایا کہ وہ سب اس کی بہت عزت کرتے ہیں بلکہ کچھ تو اس کے فین بھی ہیں.البتہ اس کے اور بچوں کی بہتر زندگی کیلئے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف وہ بولے اور چھاپے جو وسیع تر مفاد میں ہو. اس قدر ذلت سبکی کے بعد وہ جان چکا تھا کہ آزادی اظہار رائے کی کیا اہمیت ہے۔ سو اس نے ہامی بھری اور جان چھڑوائی .

گھر پہنچ کر دیکھا تو اعلی عہدیداروں اور حلقوں کی جانب سے بہت سے پیغامات تھے کہ خدا آپ کی حفاظت کرے. وہ مسکرایا اور صرف یہ کہہ پایا کہ خدا نے حفاظت کر دی لیکن ناخداؤں سے کون بچاتا.جو غیر انسانی سلوک اس کے ساتھ برتا گہا وہ کسی کو نہیں کہہ سکتا تھا.

صیاد نے اس کے ایک مخصوص فرقے سے تعلق کی وجہ سے پہلے ہی اسے غیر مسلم قرار دیا ہوا تھا،دوسرا اس کے بولنے اور لکھنے کی وجہ سے اسے غدار بیرونی قوتوں کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا ۔

اس پر بھی بات نہ بنی تو کچھ ذاتی پہلووں کو سامنے لا کر سنگین نتائج کی دھمکی دی.وہ کبھی نہیں ڈرا تھا اور نہ آج ڈرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں.

جو موت سقراط کو نصیب ہوئی وہ قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے لیکن پھر حققیقت اور آگہی نے اس کے شعور پر دستک دی ایک طرف بلکتے بچے اور جیون ساتھی تھا اور دوسری جانب اس پیشے کا تقدس. اس نے بہت غور کیا اور آخر کار ایک نتیجے پر پہنچا کہ زندگی تلخ اور کڑوی ہے۔ جہاں وہ پیدا ہوا ہے اس معاشرے میں انسانی جان کی قدر و قیمت کچھ نہیں . وہ جانتا تھا اسکے لکھنے یا نہ بولنے سے کسی کو فرق نہیں پڑے گا لیکن اس کو اپنی اوقات کا اندازہ پو چکا تھا، سو اس نے گھر میں موجود لائبریری کو آگ لگائی. کتابوں کو پھاڑا اور قلم کو توڑ کر پھینک دیا.

اسے ان تمام دوستوں کی باتیں اور نصیحتیں یاد آ رہی تھیں جو اسی سمجھاتے تھے کہ سچ نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں آپ کو ایک نہ ایک سائیڈ ضرور لینی پڑتی ہے.اسے یہ بھی یاد آ رہا تھا کہ کچھ صحافی دوست اسے پٹواریوں کا لفافہ بردار صحافی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے حالانکہ در حقیقت وہ جو بولتا اور لکھتا تھا وہ معلومات اور ضمیر کی آواز پر ہوتا تھا.

اس نے اپنے بڑے بیٹے کے اسکول کا ایک سال صرف اس وجہ سے ضائع کیا کہ ایک "انقلابی جماعت” کے سورماؤں اور وطن کے "ٹھیکیداروں” نے اس بچے کے سکول میں بھی یہ مشہور کروا دیا کہ اس کے باپ کا تعلق ایک مخصوص فرقے سے ہے اور وہ ‘غدار” ہے اور نون لیگ سے "لفافہ” لیتا ہے. اس نے یہ چوٹ بھی تحمل سے برداشت کی.لیکن اب بس.

وہ تھک چھکا تھا ،،،اس کے ہر کاروبار اور ہر موقعے کو صیاد نے بڑی کامیابی سے بند کروایا اور ایک عجیب وغریب پیشکش اس کے سامنے رکھی.اس نے نفی میں جواب دیتے ہوا کہا کہ وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کر سکتا.البتہ آینده محتاط رہوں گا. وہ یہ بھی تحریر نہیں کر سکتا تھا کہ وہ بھیانک پیشکش کیا تھی.خیر اس کا انجام سو ہو وہ ہو

آپ کو بتاتا چلوں کہ ٹین ایج میں وہ اخبار میں کام کرتا تھا. 2001میں نو عمری دور میں اس نے جنرل حمید گل کا انٹرویو کیا ۔ انٹرویو کے بعد جنرل حمید گل نے کہا تھا کہ یہ انکی زندگی کا ٹف ترین انٹرویو تھا.

اس کو مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے دوران انٹرویو یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ تم اتنے زیادہ سوالات کیوں کرتے ہو.

بہت کم لوگ مرحوم امان اللہ خان کو جانتے ہوں گے جو کشمیر کی تحریک میں ایک اہم مقام رکھتے تھے، وہ ہمیشہ اس کو اس کے نام سے پکار کر کہتے تھے کہ آئی ایم پراوڈ آف یو.

خیر بات صرف یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنی زمین پر زندہ رہنے کیلئے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہو تو پھر وہ کیا کرے ۔ مٹی کو چھوڑ کر کہیں چلا بھی جائے تو مٹی کی خوشبو پکارتی رہتی ہے.

اس نے آئندہ نہ لکھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کو معلوم ہے سوال کرنا اب پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو چکا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے