الزام کی سیاست اور نفس کی کمزوری کا شکار کپتان۔۔!!

الزام کی سیاست اور نفس کی کمزوری کا شکار کپتان۔۔!!

کشمیر میں بھارتی کرفیو اور مظالم کو تین ماہ ہونے کو ہیں سو سے زائد نہتے کشمیری شہید جبکہ بھارتی افواج کی درندگی کے ہاتھوں ہزاروں معصوم کشمیری بینائی کھو چکے ہیں دوسری طرف اڑی میں بھارتی فوجی کیمپ پر حملہ کے بعد بھارت پوری دنیا میں خود کو مظلوم ثابت کرکے پاکستان کو تنہا کرنے کے لئے لابنگ کر رہا ہے جس میں اس کو ابتدائی کامیابی خطے میں پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے والے واحد ملک سری لنکا سمیت پانچ ممالک کی اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کی صورت میں مل چکی ہے۔

خطے کی سیاست میں اتنی بڑی سُبکی اور بھارت کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے بعد اچانک بھارت نے پاکستانی کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی کرکے پاکستانی ریاست کے اسکیورٹی ڈاکٹرائن کو براہ راست چیلینج کر ڈالا۔ اتنے گھمبیر حالات میں جبکہ ایک طرف پاکستان کو سفارتی محاذ پر متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ سرحد پر بھی دو دو ہاتھ کرنے پڑ رہے ہیں وفاقی حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کی کال دے کر بیک فُٹ سے فرنٹ فُٹ پر آنے کے لئے قومی اتفاق رائے سے اسٹریٹجی بنانے کا فیصلہ کیا جس میں تمام قومی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔

اب ذرا اپنے نرگسیت کے شکار عمران خان صاحب کا ردعمل ملاحضہ ہو انہوں نے اتنی اہم کانفرنس میں شرکت پر نتھیا گلی میں یاروں کے ہمراہ پارٹی ترجیح دی جس پر خان صاحب سے چند سادہ سے سوال:
خان صاحب اب آپ کس منہ سے وزیراعظم نواز شریف پر تنقید کریں گے کہ ملک اتنے بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور وزیراعظم لندن میں شاپنگ کررہے تھے؟
خان صاحب کیا آپ جیسے قد آور سیاسی شخصیت جس نے اسی لاکھ پاکستانیوں کا ووٹ/مینڈیٹ لے رکھا ہے اتنے اہم موقع پر جب قومی اتحاد کی ضرورت تھی آپ کے نتھیا گلی میں پارٹی کرنے اور نواز شریف کے لندن میں خریداری کرنے میں کیا فرق ہے؟
کیا مسئلہ کشمیر بینائی سے محروم بچوں کی تصویروں سے زیادہ تکلیف دہ تصویر آپ کی نظر میں وزیراعظم نواز شریف سے مصافحہ کی ہوتی؟

کیا آپ اسی لاکھ لوگوں کا ووٹ لے کر قومی امور پر اتفاق رائے کو اپنی ذاتی انا کے ہاتھوں قتل کرکے خود کو ایک ذمہ دار سیاست دان اور قومی رہنما ثابت کرسکتے ہیں؟
کیا عوام کو آپ کو صرف اس لئے ووٹ دے دینا چاہئے کہ نواز شریف برے ہیں جبکہ آپ خود بھی روایتی سیاست کے امین ایک غیر ذمہ دار سیاست دان ہیں؟
کیا آپ اپنے سیاسی قد کاٹھ سے آگاہ ہیں؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ ان اہم امور پر آپ کے الفاظ کی اہمیت کیا ہوتی؟ جب پوری قومی قیادت اسلام آباد میں سر جوڑ کر بیٹھی تھی نتھیا گلی میں اداکاروں اور کرکٹروں کے ساتھ آپ کی بچگانہ سیلفیز نے قوم اور پالیسی ساز حلقوں کے ذہن پر کیا تاثر چھوڑا ہوگا؟

خان صاحب آپ کب سیاسی طور پر بالغ ہوں گے؟ کب سمجھیں گے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں آپ نے نواز شریف سے نہیں ریاست کے سربراہ سے قومی مسئلہ پر تجاویز دینے کے لیے ملنا تھا۔ یہ حکومت کی بلائی ہوئی کانفرنس تھی ن لیگ کی بلائی ہوئی کانفرنس نہیں تھی جس میں میاں صاحب کے کچن کا مینیو طے ہونا تھا بلکہ وہاں پر ریاست پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے حکمت عملی بننا تھی۔

اور معذرت کے ساتھ آپ یہ حرکت پہلی بار نہیں کررہے بلکہ اس سے قبل جب دسمبر 2014 میں پورا پاکستان آپ کو وزارت اعلی دینے والے صوبے کے آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے 147 بچوں کے غم میں سوگوار تھا آپ نے دوسری شادی کا اعلان کرکے غمگسار قوم پر سکتا طاری کردیا تھا تبھی پشاور میں ایک شہید بچے کی ماں نے آپ کا گریبان پکڑ کر کہا تھا کہ "میرے بچے کا ابھی چالیسواں بھی نہیں ہوا تھا اور تم نے سہرا باندھ لیا اس لیے پشاور والوں نے تمہیں ووٹ دئیے تھے؟”

تازہ ترین حرکت عمران خان صاحب نے تحریک انصاف کی طرف سے پاکستان کو ہندوستان کی طرف سے درپیش چیلینجز پر بلائے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے کیونکہ بقول خان صاحب پارلیمنٹ میں ان کے جانے سے نوازشریف کی پرائم منسٹر شپ کو قانونی جواز ملتا ہے جبکہ وہ یہ جواز اخلاقی طور پر کھو چکے ہیں۔ جناب وزیراعظم آپ نے نہیں ان کو عوام کے ووٹ نے بنایا ہے اور اگر اجتماعی شعور پر آپ کا بھروسہ اٹھ چکا ہے تو آپ اسمبلیوں سے استعفی دے دیں اور اس سسٹم میں جدوجہد کو خیرباد کہہ کر طاہرالقادری کی طرح ایک مختلف نظام لے کر عوام میں جائیں اور دیکھیں آپ کی حیثیت کیا ہے۔۔ موجودہ اسی لاکھ ووٹ آپ کو اسی نظام نے دئیے ہیں بار بار ان اسی لاکھ ووٹوں کی توہین نظام پر الزام دھر کر مت کریں۔ جہاں مسئلہ قومی امور کا ہو وہاں آپ سربراہ مملکت سے ڈیل کررہے ہوتے ہیں ایک شخص نوازشریف سے نہیں۔۔ برائے مہربانی ذاتیات کی سیاست مت کریں قومی دھارے کی سیاست کریں ورنہ آپ خود کو اس بند گلی سے نہیں نکال پائیں گے جہاں آپ اپنی سیاست پچھلے کچھ ماہ میں لے گئے ہیں۔

بات سادہ سی ہے فطرت کے حسن سے لطف ہونا انسانی جبلت میں ہے، خان صاحب آپ خود نہیں خرید سکتے تھے لیکن مری کی خوبصورتی آپ کے دل کو بھا گئی تو آپ آئے روز نتھیا گلی کے سرکاری ریسٹ ہاوس جانے لگے جبکہ نواز شریف صاحب مالی طور پر استطاعت رکھتے تھے انہوں نے مری میں اپنا گھر بنا لیا۔ بس آپ دونوں حضرات اپنی تفریح کے لئے وقت کا انتخاب ملک کے حالات دیکھ کر کیا کریں کیونکہ آپ میری طرح عام آدمی نہیں ہیں بلکہ میرے جیسے عام آدمی کے ووٹوں سے میرے مسائل کو حل کرنے کے لئے میرے منتخب رہنما ہیں آپ پر بھاری ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری صرف وزیراعظم منتخب ہوکر ہی نہیں ادا جاسکتی بطور اپوزیشن رہنما بھی آپ گیم چینجر کا کردار ادا کرسکتے ہیں شکریہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے