خورشید ندیم اوریا مقبول جان کے کالم کیوں شائع نہیں ہوئے؟

خورشید ندیم کے جواب سے پہلے آپ اوریا مقبول جان کا کالم پڑھ لیجئے

[pullquote]غزوۂ ہند کا گیریژن، پاکستان – اوریا مقبول جان[/pullquote]

orya

ایسے لوگوں سے ملحدین ہزار درجہ بہتر ہیں، اپنے قول میں سچے اور کھرے، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم اس کائنات کے کسی خالق پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ اسباب و علل کی دنیا ہے۔ یہاں ہر واقعہ کی سائنسی وجوہات ہوتی ہیں۔ علامہ جاوید احمد غامدی کی فکر کے خوشہ چین ایک کالم نگار پاکستان کے قیام کے بارے میں پہلے انتہائی تمسخرانہ انداز میں فرماتے ہیں ’’اب تو بات خوابوں تک جا پہنچی ہے، جیسے پاکستان کا قیام کوئی الٰہی منصوبہ تھا‘‘، اپنے اس جملے کی وضاحت میں فرماتے ہیں ’’پاکستان ایک تاریخی واقعہ ہے، اسباب و علل کی دنیا میں اس کے ظہور کے دلائل موجود ہیں۔‘‘ انھوں نے پاکستان کے قیام کو علامہ اقبال کی فکر، قائداعظم کی قیادت اور عوام کی طاقت کا مرہون منت بتایا۔ گویا ان کے نزدیک نعوذ باللہ، اللہ تبارک و تعالیٰ اس دنیا کو اسباب و علل کے حوالے کرکے ایک خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اب اس دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ مفکرین و قائدین اور جمہور عوام کر رہے ہیں۔ یہ وہ تصور ہے جو اس بات کی بنیاد رکھتا ہے کہ اللہ کی مدد، نصرت، اس کی جانب سے وارننگ، اس کی خاص مہربانی، اس کا فضل و کرم نامی چیزیں مفروضے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے کلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی احادیث اور امت مسلمہ کےا سلاف کے اقوال کو کھینچ تان کر سیکولر سائنس کی متعارف کردہ علم کی بریکٹ میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی بنیاد یہ ہے کہ یہ سب اسباب و علل یعنی ’’Cause & Effect‘‘ سے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ کاش جس اقبال کو انھوں نے پاکستان کی تخلیق کا پہلا سبب قرار دیا ہے، اس کے کلام کو صرف خلوص نیت اور جدیدیت کی عینک اتار کر پڑھتے تو انھیں اقبال کا یہ شعر اور اس قبیل کے ہزاروں اشعار مل جاتے،

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

لیکن کیا کیا جائے، موصوف کالم نگار کے نزدیک اب اللہ نے فرشتوں کو نصرت کے لیے بھیجنے کا کام چھوڑ دیا ہے اور دنیا کو سائنس اور تاریخ کے اصولوں پر چلنے کے لیے اپنی دسترس سے آزاد کر دیا ہے۔ ان کے اس سارے کالم کا بہاؤ اس موقف کی جانب تھا کہ اب پاکستان کے دفاع کی جنگ کے لیے اسلام اور جہاد جیسے الفاظ کی ضرورت نہیں۔ فرماتے ہیں ’’شجاعت نجابت کے اجزائے ترکیبی میں سے ہے۔ پاکستان کی جنگ لڑنے کے لیے یہی دلیل کفایت کرتی ہے۔ اسلام کا مخاطب ساری دنیا ہے۔ اسے قومی مفادات کے لیے استعمال کرنا خطرات سے خالی نہیں۔‘‘ کیا وہ اپنی یہ دلیل جذبۂ شوق شہادت سے سرشار ان سپاہیوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں جو دل میں شہادت کی تمنا لیے ہوں۔ انھیں کہہ سکتے ہیں کہ تم تو اپنے ملک کے لیے جان دے رہے ہو جیسے ایک بھارتی، امریکی یا ویتنامی سپاہی دیتا ہے۔ کیا گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ میں لکھے گئے اور گائے گئے ترانوں، ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ اور ’’علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے، رسول پاکﷺ نے باہوں میں لے لیا ہوگا‘‘ کو یکسر ختم کر دیا جائے اور جوانوں کے لیے موصوف کالم نگار شاید اس طرح کے ترانے لکھیں۔ ’’یحییٰ خان تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے‘‘ اور ’’ایوب خان نے باہوں میں لے لیا ہوگا‘‘ نشان حیدر کا بھی خاص تناظر ہے اور یہ حیدری روایت سے عبارت ہے۔ نشان حیدر کی جگہ بھی اب کوئی ’’لوکل‘‘ اعزاز ہوجانا چاہیے اور فوج کو چونکہ کالم نگار کے خیالات کے مطابق جمہوریت کی بقا کے لیے کام کرنا ہے، اس لیے نشان بھٹو یا نشان نوازشریف زیادہ مناسب رہےگا۔ آئندہ جو سپاہی سرحد پر جان دینے جائے گا وہ آخرت میں سینے پہ حیدر کا نام نہیں بلکہ بھٹو یا نوازشریف کا نام سجا کر جانا چاہے گا اور مرنے سے پہلے اگلے جہان ویسا ہی مقام اور مرتبہ حاصل کرنے کی دعا کرے گا۔ اب ہمیں مقامی فوج بنانا چاہیے، بالکل لوکل پاکستانی، جن کی یاد میں قرآن خوانی نہیں بلکہ شمعیں جلائی جائیں۔ فاتحہ خوانی کے بجائے ان کےلیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے۔

یہی وہ تصور ہے جس کی بنیاد پر وہ ایسی تمام احادیث کا انکار کرنے پر تل جاتے ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت سے پہلے کے دور میں ملاحم یعنی جنگوں کے ثبوت اور فتن یعنی فتنوں کے بارے میں بیان کی ہیں، اور اپنے دعویٰ کے بارے میں امام احمد بن حنبل کے نام سے ایک قول بھی منسوب کرتے ہیں۔ ’’تین طرح کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں، ملاحم، باب الفتن اور تفسیر‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ امام احمد بن حنبل کا یہ قول انھوں نے کہاں سے لیا ہے۔ لیکن جو امام یہ کہے کہ ملاحم اور باب الفتن کی کوئی حقیقت نہیں اور پھر اس کی ’مسند احمد بن حنبل‘ میں ملاحم اور فتن کے بارے میں کئی سو احادیث موجود ہوں۔ کیا انھوں نے اپنے ہی قول کے خلاف اپنی مسند میں موضوع یعنی جھوٹی احادیث جمع کی تھیں۔ اس سے بڑھ کر امام احمد بن حنبل پر اور بہتان کیا ہوسکتا ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ کالم نگار نے اسی مسند احمد بن حنبل ہی سے جو حدیث چنی ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہے، جو اپنے بعد قیامت تک آنے والے حالات کے بارے میں ہے۔ یعنی باب الفتن سے حدیث منتخب کی ہے جس میں آپ ﷺ نے پانچ ادوار بتائے ہیں اور آخر میں خلافت علی منہاج النبوہ کا ذکر کیا۔ اس خلافت علی منہاج النبوہ سے آج کے جدیدیت کے مارے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ موصوف کالم نگار نے اس کو بھی خواجہ حسن بصری کے ایک قول سے تیرہ سو سال پہلے ہی ختم کرنے کی کوشش کی ہے کہ خلافت جو کہ ملوکیت کے بعد آنی تھی، وہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں آچکی۔ اب امت چین سے جمہوریت اور سودی بینکاری و معیشت کے ساتھ زندگی گزارے، خلافت نہیں آئے گی، عیش کرو۔ حیرت کی بات ہے کہ حسن بصری حضرت عمر کے دور میں 21 ہجری کو پیدا ہوئے، عمر بن عبدالعزیز ان سے ٹھیک 42 سال بعد پیدا ہوئے اور آپ کا انتقال 101 ہجری میں ہوا۔ حسن بصری کو یقیناً اس وقت نوے برس کی عمر تک پہنچ جانا چاہیے، ان کی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں موجودگی کی مستند تاریخی شہادت نہیں ملتی۔ لیکن کالم نگار نے چونکہ خلافت کے تصور کے خاتمے کی بات کرنا تھی تو اس حدیث پاک کی تفسیر کے لیے تاریخ کی غیر مستند روایت پر یقین کرلیا۔

گزشتہ سو سال کی انسانی تاریخ میں سیکولر، لبرل اور جدت پسند مسلمانوں کا دکھ صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ دنیا بھر کے دو سو ممالک تو رنگ نسل اور زبان کی بنیاد پر بنے یا بنا دیے گئے، لیکن یہ پاکستان اللہ کے نام پر کیسے بن گیا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ منشائے الہی تھی تو یہ جدیدیت کے مارے مسلمان فرماتے ہیں کہ اللہ نے تو اب دنیا کو تاریخ کے سپرد کر دیا ہے اور وہ خود آرام کر رہا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اس پاکستان کا قیام دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش گوئیوں کے مطابق ہونے والے جہاد ہند کا پہلا زینہ ہے تو وہ کہتے ہیں یہ سب احادیث ہی غلط ہیں۔

اس امت نے سید الانبیاء کی احادیث کی جانچ پرکھ کے لیے جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کا علم ایجاد کیا اور صدیوں محنت کرکے بتایا کہ کون سی حدیث ’’حسن‘‘ یعنی سچی اور کون سی ’’موضوع‘‘ یعنی چھوٹی ہے۔ ہم جب حدیث بیان کرتے ہیں تو ان کی سند سے ہی بیان کرتے ہیں، موصوف کالم نگار کی سند کی ضرورت نہیں۔ جدید امن کے متوالے کہتے ہیں کہ تم بھوکے، ننگے ہو اور ایٹم بم بناتے ہو۔ حضرت! ہر دکان میں اس کے حساب سے مال سجتا ہے۔ کریانے کی دکان میں کریانہ اور کتابوں کی دکان میں کتابیں۔ یہ مملکت خداداد اور پاکستان دور فتن کی بڑی جنگ غزوۂ ہند میں مسلمانوں کا گریژن ہے۔ یہاں ایٹم بم، میزائل اور ہتھیار ہی رکھے جائیں گے، میک اپ کا سامان نہیں، سامان تعیش اور مقامات عیش و نشاط نہیں۔ غزوۂ ہند کے بارے میں انھیں احمد حنبل کی مسند میں درج کئی احادیث میں سے ایک حدیث تحریر کر رہا ہوں۔ اس حدیث کا درجہ تمام ائمہ جرح و تعدیل کے مطابق ’’حسن‘‘ ہے۔ حضرت ثوبان سے مروی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں سے دو گروہ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا۔ ایک وہ جو ہند پر حملہ آور ہوگا اور ایک وہ گروہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔‘‘ اس حدیث کو بیہقی، المستدرک، المعجم الاوسط، امام بخاری کی روایت سے التاریخ الکبیر، مجمع الزوائد، جمع الجوامع، سنن نسائی، النہایہ فی الفتن والملاحم، الکامل اور دیگر کئی احادیث کی کتب میں درج کیا گیا ہے۔ بات تاریخ، خواب یا بشارت کی نہیں، سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے۔ جنھوں نے وقت کا تعین کرتے ہوئے بتایا ’’جب تم ہند کے حکمرانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لاؤ گے تو عیسیٰ ابن مریم کو اپنے درمیان پاؤ گے(الفتن)۔ ایسے میں کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو پاک فوج میں اسلام کے نام پر شہادت نہیں بلکہ وطن کے نام پر موت مانگے گا۔

[pullquote]خورشید ندیم کا جوابی کالم ملاحظہ کیجئے.[/pullquote]

Khurshid Nadeem

مشکل یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام محض خلوصِ نیت سے نہیں ہو سکتا۔ کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جو دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں پورے خلوصِ نیت سے چاہوں، تو بھی علامہ اقبال کے پورے کلام میں یہ شعر تلاش نہیں کر سکتا :

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اب جو شعر مولانا ظفر علی خان نے لکھا ہو، کلیاتِ اقبال میں کیسے مل سکتا ہے؟ میرا تمام تر اخلاص اور میری بےکنار خواہش مل کر بھی، یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے۔ میں لوگوں کو اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر کام خلوص نیت ہی سے ہو جائے۔ انسان محض جذبات کا نام نہیں، اﷲ نے اسے عقل بھی عطا کی ہے۔ اﷲ کی یہی نعمت اسے شرفِ انسانیت سے نوازتی ہے۔ اسی کی وجہ سے وہ ایک اور بڑی اور غیر معمولی نعمت، وحی الٰہی کا مخاطب بنتا ہے۔ اسی کی مدد سے وہ اﷲ کے رسول کو پہچان سکتا ہے، جن کی بعثت کو اﷲ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔ قرآن مجید نے آپﷺ سے کہلوایا ’’میں تمہارے درمیان ایک عمر بسر کر چکا، کیا تمہیں عقل نہیں۔‘‘ عقل والوں کے لیے آپﷺ کی عمرِ مبارک کو دلیلِ نبوت بنا دیا گیا۔ عقل اگر خلوص نیت کے ہم رکاب نہ ہو تو فرد ہی نہیں قومیں بھی برباد ہو جاتی ہیں۔ یوں بھی خلوص ایک دلی کیفیت ہے۔ کوئی میرے اخلاص کو جاننے پر قادر ہے نہ میں کسی کے اخلاص کو جان سکتا ہوں۔ دلیل ہی واحد راستہ ہے جو مکالمے کو ممکن بناتا ہے۔

گزشتہ کالم میں اپنے پڑھنے والوں کو اسی جانب متوجہ کرنے کی کوشش میں دو باتیں لکھی گئیں: ایک یہ کہ پاکستان کا قیام کوئی الٰہی منصوبہ نہیں۔ اس کی بنیادیں اسباب و علل میں ہیں۔ اس کے لیے دینی بنیادیں تلاش کرنا ایک غیر ضروری مشقت ہے۔ پھر یہ بھی عرض کیا کہ اسلام اﷲ کی نعمت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ اسے اہل پاکستان تک محدود کرنا درست نہیں۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ اس طرح کے تاریخی واقعات کو دینی استدلال فراہم کرنے کی کوشش میں، جب حدیث کی کتب میں موجود روایات کو عصری واقعات پر منطبق کیا جاتا ہے تو اس سے خود دین کی صحت کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ اس لیے، یہ ایک جسارت ہے جس سے گریز کیا جاناچاہیے۔ بطور مثال، دو روایات کا ذکر بھی کیا گیا کہ کیسے ماضی کے واقعات پر ان کا انطباق کیا گیا اور کیسے آج پھر ان کی بنیاد پر لوگوں کو قتل و غارت گری کے لیے ابھارا جا رہا ہے۔ یہ بات کہنے کی پاداش میں، ایک محترم ناقدکا خیال ہے کہ مجھ جیسے لوگوں سے’’ملحدین ہزار درجہ بہتر ہیں‘‘۔ میراحسنِ ظن یہ ہے کہ یہ فتویٰ بھی خلوص نیت سے دیا گیا ہوگا۔ اس لیے اس اخلاص پر، میں ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہوئے، ان کے اعتراضات اور ان کے موقف کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اسے دلیل کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یوں بھی بابِ الفتن اور ملاحم کی روایات اور ان کا اطلاق ہمارے عہد کی اہم ترین دینی بحث ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلم معاشرے میں اس حوالے سے ابہام کا خاتمہ ہو۔

میں نے ان روایات کے باب میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول نقل کیا کہ ان کی کوئی اصل نہیں تو کہا گیا۔ ’’نہیں معلوم کہ امام احمد بن حنبل کا قول انہوں نے کہاں سے لیا۔‘‘عرض ہے کہ اسے امام جلال الدین سیوطی نے اصولِ تفسیر پر اپنی مشہور کتاب ’’ الاتقاق فی علوم القرآن‘‘ کی دوسری جلد میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’قال احمد :ثلاث کتب لااصل لھا: المغازی والملاحم والتفسیر‘‘

تین قسم کی کتابیں ایسی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں: مغازی، ملاحم، اور تفسیر۔ آج مسلمانوں کو یہی ملاحم کی روایات سنا کر، انہیں جنگ پر ابھارا جاتا ہے۔

میں نے مسند احمد کی روایت کا حوالہ دیا تھا جس میں ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے قیام کا ذکر ہے اور اس ضمن میں حسن بصری کا ایک قول نقل کیا تھا۔ میں نے بتایا کہ اس کا مصداق بھی ماضی میں متعین ہو چکا۔ ناقد نے اسے بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی کہ ’’حسن بصری کی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں موجودگی کی مستند تاریخی شہادت نہیں ملتی‘‘۔ مکرر عرض ہے کہ یہاں بھی صرف خلوص نیت سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ حسن بصری کا سالِ وفات۱۱۰ھجری ہے۔ ان کا انتقال عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے نو سال بعد ہوا۔ اس وقت مولانا علی میاں کی ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ اور عبدالرحمٰن رافت پاشا کی’’سیرتِ تابعین‘‘ میرے سامنے ہیں۔ دونوں نے حسن بصری کا سال وفات ۱۱۰ ھجری بتایا ہے۔ اب رجال الغیب نے ان کی تاریخِ وفات کچھ اور بتائی ہو تو اس کا جواب دینے سے یہ لکھنے والا عاجز ہے۔’’حضور‘‘ کی بات کرنے والوں کو امور غیب کی کیا خبر۔ میرے ناقد کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ دراصل حسن بصری نے عمر بن عبدالعزیز کو مہدی قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کا بھی انکار کریں، عرض ہے کہ حوالے کے لیے پہلے سیوطی ہی کی ’’ تاریخ الخلفاء‘‘ سے رجوع فرمائیں۔ اس باب میں مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی روایت کے ایک راوی حبیب بن سالم یہ کہتے ہیں کہ جب عمر بن عبد العزیز کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے یہ حدیث انہیں لکھ بھیجی اور ساتھ ہی اپنے اس احساس کا ذکر بھی کیا کہ آپ ہی وہ خلیفہ ہیں، جن کا اس روایت میں ذکر ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس تعبیر کو سن کر عمر بن عبد العزیز بہت خوش ہوئے۔ ( مشکوۃ، چہارم، حدیث 1309)

مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے۔ دین قیاس پر نہیں محکم بات اور یقین پر کھڑا ہے۔ جب لوگ غیر مصدقہ باتوں کو ’’رسول اللہ نے فرمایا‘‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو دراصل انہیں دینی سند دے دیتے ہیں۔ جب یہ باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں تو ہماری یہ غلطی دین کی غلطی سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے دین کے مسائل صرف خلوصِ نیت سے بیان نہیں ہو سکتے، اس کے لیے محکم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

میں نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ جب لوگ یقین کے ساتھ ان روایات کا مصداق طے کرتے ہیں تو کیسے لاکھوں لوگوں کے جان و مال اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بارہا یہ ہوا کہ چند واقعات پر ان روایات کو منطبق کیا گیا۔ لوگوں نے جان و مال کی قربانی دی مگر روایات میں کہی گئی کسی بات اور واقعے کا مصداق نہ بن سکے۔ مثال کے طور پر جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف معرکہ آرائی جاری تھی یا جب طالبان آئے تو پھر ان رویات کا مصداق طے کیا گیا۔ میرے سامنے اس وقت ایک کتابچہ ’’جہادِ پاکستان سے ظہورِ مہدی تک‘‘ رکھا ہے۔ یہ کتابچہ ۲۰۰۲ء میں لکھاگیا۔ اس میں باب الفتن کی روایات کا اطلاق افغانستان پر کیسے کیا گیا ہے اور اس کے بعد کے ماہ و سال نے کیسے انہیں غلط ثابت کیا، اس بات کو میں اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
اس کے ساتھ مجھے یہ بھی بتانا ہے کہ الہی منصوبہ کیا ہوتا ہے اور کیا پاکستان الہی منصوبہ تھا؟ پھر یہ کہ غزوہ ہند کی روایات کی حقیقت، روایت اور درایت کے پہلو سے کیا ہے۔ماضی میں کس طرح اس روایات کا اطلاق کیا گیا؟ اﷲ نے چاہا تو یہ سب آنے والے کالموں کے موضوعات ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہائے مضامین کا ایک نیا سلسلہ میرا منتظر ہے:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

بشکریہ ” دلیل "

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے