ڈاکٹرفاروق کی یاد میں

آج انتہائی قریبی دوست ڈاکٹر فاروق حیدر صاحب کی برسی ہے۔ کشمیر کے دونوں جانب جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ان سب سے استدعا کہ ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا فرمائیں۔

آج کل کشمیر کے حوالہ سے جو دہلی و اسلام آباد میں ہلچل جاری ہے . قوم و ملک جس صورت حال سے گزر رہا ہے اس میں سے کچھ باتیں ہم کشمیریوں کیلئے اہم ہیں.

گزشتہ ہفتہ نیویارک میں امریکہ و کینیڈا میں مقیم وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے با اثر دانشوروں اور با اثر سیاسی رہنماوں کا ایک بھرپور اجلاس ہوا، اس سے ایک بڑی امید پیدا ہوئی ہے کہ کشمیری اپنی تحریک آزادی کی لگامیں اپنے ہاتھ میں لینے اور رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور لینا چاہتے ہیں ۔

دوسرا جو میں سمجھ سکا وہ یہ کہ جو لوگ مکمل آزادی کی سوچ کو پسند کرتے ہیں ،انہیں دو چیزوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے ۔

اول:ملک اور بیرون ملک جہاں کہیں کشمیری آباد ہیں انہیں اور ان کی طاقت کو یکجا رکھنے کے لیئے ایک بڑی منظم ریاست گیر طاقتور سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے .

دوم: ایک قابل عمل قابل قبول سیاسی پروگرام ،منشور و پر امن لائحہ عمل ، ایسا سیاسی عمل جو ریاست کے سبھی خطوں کیلیے باعث کشش اور قابل عمل ہو ،لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کا کا باعث بنے اور جس سے پُرامن حل کے لیے بھارت و پاکستان کی لیڈر شپ سے بات چیت کی راہیں کھل سکیں.

حالیہ تباہ کن کشیدہ حالات سے ایک opportunity پیدا ہوئی ہے ،کشمیری آگے بڑھیں اور اپنی وادی کو آگ و خون کے شعلوں سے بچائیں۔ آج کل کے حالات میں ایک بار پھر ، سچ ، اور سچائی کا قتل عام ہو رہا ہے ۔جھوٹ اور صرف جھوٹ لکھا ،بولا، پڑھا اور سُنا جانے کا ایک نشہ طاری ہے ۔سچ کا علم بلند کرنے کی ضرورت ہے .

ڈاکٹر فاروق صاحب کو ان کی برسی کے موقع پر ڈاکٹر صاحب کے چند اشعار پڑھ لجیے . کوشش کیجیے کہ ذرا سُر اور اونچی آواز میں پڑھیں‌ . ان اشعار کی لڑی میں کئی سچ پروئے ہوئے ہیں .

ہم کفر مٹائیں تو جاسوس ہیں
جان پر کھیل جائیں تو جاسوس ہیں

تم پیالے بھرو تو محب وطن
خون ھم جو بہائیں تو جاسوس ہیں

تم گھروں کو بھرو تو محب وطن
ہم گھروں کو لٹائیں تو جاسوس ہیں

تم لہو کو پیو تو محب وطن
ہمُ نعرہ لگائیں تو جاسوس ہیں

تم محب وطن تاشقند میں بنو
ہم جو "گنگا” اڑائیں تو جاسوس ہیں

تم جو عدو سے ہٹو تو محب وطن
ہم عدو کو مٹائیں تو جاسوس ہیں

تم جو ناچو برھنہ، تو ناچو کہ ہم
دار پر جھول جائیں تو جاسوس ہیں”

خدائے بزرگ و برتر ہم سب کے دلوں کو سچائی قبول کرنے کیلئے گداز بنائے۔

آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ جموںوکشمیر کے سب ہی خطوں میں عوام کی بھاری اکثریت ریاست جموں کشمیر میں امن ، انصاف ، آزادی،

ڈاکٹر فاروق کے ساتھ ایک یادگار لمحہ
ڈاکٹر فاروق کے ساتھ ایک یادگار لمحہ

جمہوریت ، اعلی انسانی قدروں اور منصفانہ معاشی نظام پرمشتمل ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتی جسے بجا طور دنیا میں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جانا و پہچاناجائے۔

مقبول بٹ شہید سمیت بہت سے لوگوں کی قربانیاں اس خاموش اکثریت کی سیاسی اہمیت تسلیم کیے جانے کا سبب بنیں مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حاصل اہمیت اور قدر و منزلت میں کمی آئی۔ ایسا کیوں ہوا اور کیوں ہو رہا ہے؟

کشمیر کی خود مختاری چاہنے والے مختلف اوقات اور مراحل اور الگ الگ وجوہات کی بنا پر تقسیم ہوتے رہے، ہمارایہ طرز عمل ہمارے سیاسی وجود اور سیاسی اہمیت کو کمزور کرنے کا سبب بنا۔

ڈاکٹر صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے کرتے میرے خیالات کسی اور جانب نکل گئے اور وہ سوالات اٹھائے جن کا میں خود بھی حصہ رہا ہوں مگر میری خواہش ہے کہ جواب ان کی طرف سے بھی آئے جن کا شمار ”سابقون الاولون” میں ہوتا ہے . جواب مگر الزام تراشیوں کی بجائے ٹھوس علمی و تحقیقی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے ۔

ڈاکٹر فاروق کے ساتھ صاحب مضمون کی ایک تصویر
ڈاکٹر فاروق کے ساتھ صاحب مضمون کی ایک تصویر

میں چاہتا ہوں کہ یہ گروہ بندیاں ،گروپ بندیاں ختم کرنے کے راستے کُھلیں، ایسا ماضی میں جھانکنے اور بٹ شہید کے سیاسی فلسفہ آزادی کو زیر بحث لانے ، آپسی مکالمے سے ممکن ہو سکتا ہےتا کہ پر امن سیاسی تحریک کو تقویت ملے۔

اب عوام با شعور ہو چکے ہیں وہ اندھی تقلیداور شخصیت پرستی کے حصار سے باہر آ رہے ہیں ۔ وادی کشمیر میں سیاست دان بند ہیں مگر تحریک چل رہی ہے . یہ رویہ اپنے اندر بہت کچھ سموے ہوئے ہے مگر ہے خطرناک۔

کسی مضبوط سیاسی رہنما کو سامنے آکر اور قوم کو ڈسپلن میں لا کر آگے بڑھنا ہے ۔ یقینی طور اب لوگ پہلے سے زیادہ باشعور ہو کر کہہ رہے ہیں کہ آزادی کیوں ،کس کس سے اورکس کس کے لیے ؟

میں شاید ایسا نہ لکھتا جس سے بلا ضرورت ماضی میں جھانکنے کا تاثر ملے مگر دو باتیں گزشتہ ہفتہ نیویارک میں امریکہ و کنیڈا میں مقیم وادی کشمیر سے تعلق رکھنے با اثر دانشوروں کا ایک بھرپور اجلاس ہوا.اس سے ایک بڑی امید پیدا ہوئی ہے کہ کشمیری اپنی تحریک آزادی کی لگامیں اپنے ہاتھ میں لینے اور رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے