ہر آن کربلا ہے .

یکم محرم اکسٹھ ہجری کو کربلا شروع ضرور ہوئی مگر ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی امکان ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ جو معاملہ بہتر ارواحِ مطہر کی شہادت سے شروع ہوا وہ ڈیڑھ ہزار برس میں پھلتا پھولتا بہتر کروڑ تک جا پہنچا ہے۔بس ذرا سا روائیتی ذہنی فریم توڑ کے اپنے دماغ کی جالا بند کھڑکی سے باہر جھانکنے کی ضرورت ہے۔کوئی شے استعارہ نہیں سب ایک پتھریلی حقیقت ہے۔

ڈیڑھ ہزار برس پہلے بھی جب قتلِ عام کی خبر صحرائی بگولوں کے ہمراہ کوفہ تا مصر عام آبادی میں پھیلی ہوگی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوا ہوگا ؟ خبر سن کے کچھ دیر کے لیے ذہن سناٹے میں آگیا ہوگا اور تاسف میں سر ہلایا گیا ہوگا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں چند غمگین جملوں کے تبادلے کے بعد زندگی پھر ڈھرے پر آ گئی ہوگی۔جتنے منہ ہوں گے اتنی باتیں ہوئی ہوں گی۔کسی بھی دور کا عام آدمی اس سے زیادہ احتجاج کا عیش مول نہیں لے سکتا۔ مسئلہ نظریے سے زیادہ سروائیول کا ہے۔

ڈیڑھ ہزار برس پہلے آبادی بھی بہت کم تھی اور بندوق ، ٹینک اور جہاز بھی نہیںتھے لہذا کم ہلاکتوں سے بھی سطوت و جبروت کا کام چل جاتا تھا۔آج لوگوں کے ذہن کنٹرول کرنے کے لیے زیادہ لوگ مارنے پڑتے ہیں۔کاش یزید کسی فرد کا نام ہوتا تو کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا۔مگر یہ تو ایک کیفیت ہے جس کے عقیدے ، رنگ ، نسل اور نظریے کے بارے میں کوئی بھی اٹکل لڑانا ایک بے معنی مشق ہے۔یوں سمجھئے جیسے ہوا ہے ، پانی ہے ، آگ ہے ویسے ہی یزیدیت اور حسینیت بھی ہم سب کی زندگیوں میں سائے کی طرح ایک دوسرے کے تعاقب میں آزو بازو ، اوپر تلے ، اندر باہر چل رہی ہے۔ دونوں کیفیات مسلمانوں کے ہر چھوٹے بڑے فرقے سمیت دنیا کے ہر مذہب و لا مذہب میں نہ صرف موجود بلکہ مسلسل رواں ہیں۔مگر ہمیں یوں دکھائی نہیں دیتیں کہ مقابل پر سے نگاہ ہٹے تو خود پے نگاہ پڑے۔

یا تو وہ زمانے افسانوی تھے یا درحقیقت تھے بھی تو اب نہیں ہیں کہ جب حقائق یا سفید تھے یا پھر سیاہ۔آج کی دنیا میں کچھ سیاہ سفید نہیں رہا۔سب گرے ہے۔میرے اندر پوشیدہ حسینیت کی رمق اور یزیدیت کی لہر میں سے کس وقت کیا باہر آ جائے یا کب دونوں کیفیات اندر ہی اندر خلط ملط ہو کر پھر الگ الگ ہو جائیں یہ میں نہیں جانتا۔میں کب ظالم سے مظلوم اور مظلوم سے ظالم میں تبدیل ہو جاؤں۔نمی دانم۔

البتہ دو کربلائیں تو بالکل سامنے ہیں۔ایک کو لوگ شام کہتے ہیں اور دوسری کو یمن۔ دونوں کربلائیں ایک دوسرے سے ہزاروں کلو میٹر دور ہونے کے باوجود بھی ان معنوں میں جڑی ہوئی ہیں کہ دونوں جگہ مارنے والے بھی خود کو مرنے والے کا ہم عقیدہسمجھتے ہیں۔پکڑے یوں جاتے ہیں کہ ایک نے اگر ایک جگہ حسینی چولا پہن رکھا ہے تو اسی نے دوسری کربلا میں یزیدی تلوار سونت رکھی ہے۔بقولِ جالب
کہاں قاتل بدلتے ہیں
فقط چہرے بدلتے ہیں

ڈیڑھ ہزار برس پہلے جب پیغام رسانی اونٹ یا گھوڑے پر بیٹھے تیز رفتار قاصدوں کی محتاج تھی تب بھی یہ اطلاعاتی عیاشی محض امرا و خواص کو میسر تھی۔عام آدمی براہِ راست اطلاع بھیجنے یا وصول کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔اسے تو اتفاقاً مہینوں برسوں میں معلوم پڑتا تھا کہ دور پار کیا ہوا کیا نہیں ہوا۔لہذا اس دور کا عام آدمی یہ کہتے ہوئے حق بجانب لگتا ہے کہ ہمیں اگر بروقت معلوم ہوجاتا کہ نواسہِ رسول ، اہلِ بیت اور احبابِ اہلِ بیت پر ایسی المناکی و بے توقیری آن پڑی ہے تو ہم کاہے کو گھروں میں بیٹھے رہتے۔ (حالانکہ یہ عذر ایک دو کوس پرے کے اہلِ کوفہ پر لاگو نہیں ہوتا۔پر چلیے اس دور کی سفاک شاہی کے پیشِ نظر اہلِ کوفہ کا پردہ رکھ لیتے ہیں)۔

مگر آج تو عالمِ اسلام میں ڈیڑھ ہزار برس پہلے جیسی سفاک شاہی نہیں۔آج تو خبر رئیل ٹائم میں یہاں سے وہاں اور شہر تا گاؤں پہنچتی ہے۔تو پھر ماریطانیہ سے انڈونیشیا تک ایک بڑا سا کوفہ کیوں نظر آ رہا ہے؟ ایسے ہی کوفیوں کے لیے شائد محاورہ ہے ’’ سوتے کو تو جگا لوں جاگتے کو کیسے جگاؤں‘‘۔
مشرقِ وسطیٰ کے سب سے غریب ملک یمن پر مشرقِ وسطیٰ کے سب سے امیر ممالک پچھلے بیس ماہ میں دس ہزار سے زائد فضائی حملے کر چکے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں۔ان میں سے لگ بھگ ایک ہزار حملے رہائشی علاقوں پر ، ایک سو چودہ بازاروں پر ، تین سو اٹھاسی جنرل ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں پر ، چونتیس مساجد پر ، ایک سو سینتالیس اسکولوں پر اور بیس حملے یونیورسٹیوں پر ہو چکے ہیں۔ ایک بازار ایسا بھی ہے جس پر چوبیس فضائی حملے ہو چکے ہیں۔ان حملوں میں سات ہزار لوگ ہلاک اور پچاس ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔ہلاک و زخمی ہونے والوں میں آدھے سے زائد سویلین ہیں اور ان سویلینز میں آدھے سے زائد بچے ہیں۔ ڈھائی کروڑ میں سے چوبیس لاکھ یمنی بے گھر ہو چکے ہیں۔

ڈیڑھ لاکھ جان بچانے کے لیے جیبوتی و صومالیہ جیسے اپنے سے بھی بدحال ممالک میں پہنچ چکے ہیں۔تیس لاکھ آبادی کو خوراک کی فوری ضرورت ہے۔تین لاکھ ستر ہزار بچے فاقہ کشی کے سبب نشوونما سے محروم ہو چکے ہیں۔ناکافی غذائیت کا یہ عالم ہے کہ اٹھارہ ماہ کے بچے کا وزن چھ ماہ کے بچے کے برابر پہنچ گیا ہے۔مریضوں میں زخمیوں کے بعد سب سے زیادہ تعداد پانچ برس تک کے بچوں کی ہے۔چھ سو اسپتال اور کلینک بند ہو چکے ہیں۔جو گنے چنے اسپتال کام کر رہے ہیں وہ سب ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز اور ریڈ کراس جیسے اداروں کے مرہونِ منت ہیں۔بحری ، بری و فضائی ناکہ بندی کے سبب ادویات عنقا ہیں اور پیٹ کی بیماریاں بھی کینسر کی طرح جان لیوا ہیں۔

دوسری کربلا یمن سے کہیں زیادہ المناک ہے۔ گذشتہ ساڑھے پانچ برس کے دوران ڈھائی کروڑ آبادی میں سے آدھی دربدر ہو چکی ہے اور بارہ فیصد ہلاک و زخمی ہے۔بھانت بھانت کے لشکروں کا ایک ایسا گھمسان ہے کہ نہیں معلوم پڑ رہا کہ یزیدی کون ہے اور حسینی کون ہے۔ حلب جیسے شہر جو ہزاروں برس کے تہذیبی آثار پلو میں سمیٹے سفید پوشی نبھا رہے تھے۔

خود وہ شہر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اکیسویں صدی میں جتنی سستی زندگی شامیوں کی ہے خدا باقی صدی میں کسی کی نہ کرے۔اور جس قدر بے حسی یہاں سے وہاں تک کی مسلمان دنیا میں ان دونوں جیتی جاگتی کربلاؤں کے تعلق سے فراواں ہے اس کے آگے تو کوفہ کی افسانوی بے حسی بھی رحم ہے۔البتہ کسی کو پناہ چاہیے تو غیر مسلم ممالک سے رجوع کرے۔( ترکی ، اردن ، لبنان وغیرہ کو یوں پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھولنا پڑے کہ شام سے ہمسائیگی ان کی مجبوری ہے۔ورنہ ایران اور سعودی عرب کی طرح ذرا بھی دور ہوتے تو ان کے ہاں پناہ گزین کی پ بھی پناہ نہ لے سکتی )۔

ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس والی کربلا کا ان کربلاؤں سے تقابل سوائے دماغی خلل کے کچھ بھی نہیں۔مگر میرا ماننا ہے کہ اکسٹھ ہجری میں حسین نہیں انسانیت مری تھی۔لہذا کربلا کسی ایک واقعہ کا نہیں تسلسل کا نام ہے۔جیسے بے حسی ایک تسلسل کا نام ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے