غریبی میں بھی ادائیں امیری کی

قدرت نے ہاتھی کو خشکی کے جانوروں سب بڑا موجودہ جانور بنایا ہے جس کی وجہ اس کی قوی ھیکل جسامت ہے۔قدرت نے دیو ھیکل جسامت والے ہاتھی کو بہت چھوٹی آنکھیں دی ہیں جس کا جواز ہمارے بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ اگر ہاتھی کی آنکھیں بھی جسامت کی مناسبت سے ہوتیں تو یا کم از کم ہرن کی طرح بھی ہوتیں تو ہاتھی اپنے بھاری بھرکم جسم کی بدولت تباہی اور بربادی پھیلاتا پھرتا اور ہمارے قابو میں آسانی سے نا آتا۔ قدرت نے انسان پر رحم ہی رحم کیا ہے اور عقل جیسی نعمت دے کر اپنی تخلیقات میں افضل ترین یعنی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کردیا ہے۔ اپنے نائب کا درجہ بھی دے دیا۔

اربوں کھربوں انسان اس دار فانی میں آئے اپنی اپنی زندگیاں اپنے اپنے طرز پر جئیے اور رخصت ہوئے ۔ یہ بات تو طے ہے کے قدرت کے کارخانے میں ایسےمصور بیٹھے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لر آج تک پیدا ہونے والے انسان کی شکلیں مختلف بنا رہےہیں۔ جبکہ بنیادی اعضاء جب سے لیکر آج تک وہی ہیں یعنی دو آنکھیں، دو کان، ناک اور ہونٹ مگر ہلکی پھلکی مشابہت کے علاوہ ہر چہرہ دوسرے سے مختلف بنا رہےہیں۔ خدوخال مختلف بنانا اگر کوئی بات نہیں ہے تو ہر انسان کے احساسات مختلف بنارہے ہیں، سوچ مختلف بنا رہے ہیں، بولنے کا انداز مختلف، چلنے کا انداز مختلف، کھانے کا انداز مختلف غرض یہ کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں۔ شاذ ونادر آپکو جڑواں اور دو سے زیادہ پیدائش کی خبریں بھی ملتی ہیں۔ جن میں ایک جیسے خدوخال بھی مل جاتے ہیں اور ایک جیسی عادت بھی لیکن ایسا بہت کم کم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد قدرت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے وہ ایسا نہیں کر سکتی، قدرت اپنی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ "اللہ ہر شے پر قادر ہے”۔

ہر انسان کو قدرت نے کسی نا کسی ایسی خاص صفت سے نوازا ہے جو اسے دوسروں سے منفرد کرتی ہے مگر اس صفت کو اخذ کرنا، جانچنا یا اپنے اندر سے نکالنا ایک ایسے عمل کا محتاج ہے جسے "ریاضت” کہتے ہیں۔ اہلِ تصوف تو اس عمل سے بہت اچھی طرح واقف ہیں مگر ایک عام آدمی کیلئے یہ ایک مشکل اور صبر آزما عمل ہے۔ ریاضت سے مراد ایسا عمل جو آپ کو اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پہچاننے میں مدد فراہم کرے اور قدرت کے رازوں سے شناسائی دے۔ اس عمل کی بدولت جہاں انسان میں خود اگہی کا شوق پیدا ہوتا ہیں تحمل اور بردباری بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کسی بھی اچھنبے سے باہر آجاتا ہے یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ "گنجلک اور آلودہ ماحول سے باہر آجاتا ہے” ظاہری سطح سے بلند ہوجاتاہے وہ بظاہر تو زمین پر چل رہا ہوتاہے مگر درپردہ اسکے پیر زمین پر نہیں ہوتے وہ عام انسانوں سے بلند ہوجاتا ہے اسکی ذہنی کیفیت عام انسانوں سے مختلف ہوتی چلی جاتی ہے۔ اپنی خصوصیت کی بناء پر وہ خاص ہوا جاتا ہے۔

آج دنیا میں رہنے والے انسانوں کو جنہیں اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے بہت برے حالات و واقعات کا سامنا ہے ۔ہم اپنے دشمن خود ہی بنے بیٹھے ہیں۔ انسان کے دل میں خدا بننے کی خواہش اسے اس حال تک پہنچا چکی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی کسی بھی بد نظمی سے گریز نہیں کرتے۔ یہاں تک کے انسانیت کا قتلِ عام کردیتے ہیں۔ اس دور میں حق کی بات کرنا اور کہنا بلکل بے معنی ہوچکا ہے۔ آج جھوٹے کی اہمیت بہت زیادہ ہے مگر سچ کو کوئی پوچھتا نہیں۔

ہمارے ملک کی اکثریت آبادی غربت کی لکیر کو چھو رہی ہے، باقی متوسط طبقے میں آجاتے ہیں۔ بات دراصل کچھ یہ تھی کے عاشورہ کے دن ایک طرف تو سوگ ہی سوگ اور رنج، علم و ماتم تھا تو دوسری طرف تقریباً ہرگھر سے کچھ نا کچھ بانٹا جا رہا تھا، ہر گھر سے بچہ، بچی، بوڑھا جوان ہاتھ میں کچھ نا کچھ لئے بانٹنے جاتا دیکھائی دے رہا تھا۔ کھانے سے لے کر بچوں کی آئس کریم تک بٹتے دیکھی۔ ایک عجیب سی گہما گہمی تھی۔ کچھ بچے اپنی جیب خرچی سے ٹافیاں خرید کر بانٹ رہے تھے۔ بانٹنے کی ایسی تربیت تو شائد ہی ک اس بات سے قطع نظر کے ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جنہیں یہ بھی نہیں پتہ ہوگا کے وہ کیوں بانٹ رہے ہیں۔ ہاتھی کی آنکھیں چھوٹی کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آگئی مگر کم حیثیت والے بڑھ چڑھ کر اپنے دین سے محبت میں بڑے سے بڑے امیر کو پیچھے چھوڑتے دیکھے جاتے ہیں۔ یہی ہم پاکستانیوں کی خوبی ہے کہ جب کبھی بھی وطن سے محبت کا ثبوت دینا ہو تو یہ غریب قوم ریکارڈ خرچہ کر کہ ملک کے گلی کوچوں کو سجاتی ہے۔ جب دین سے اسلام سے محبت کا ثبوت دینا ہوتو اپنے لہوسے بھی چراغاں کرتے ہیں اور اتنا کھلاتے ہیں کے کھانے والے کم پڑجاتے ہیں۔ یہ ہم غریب پاکستانیوں کی امیری کی وہ ادائیں ہیں جن سے ہمارا دشمن بھی خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس کو معلوم ہے یہ قوم اپنے ملک اور مذہب کی خاطر "شھد کی مکھیوں” کا جتھا بن جاتی ہے۔ ہم پاکستانی اپنے ملک اور اپنے مذہب کیلئے نا مارنے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے