میری ننھی کلی نئے گھر کو چلی

شادی سے پہلے بھایؤں کو اپنی بہن یا بہنوں سے اپنے بہت سارے کام کرانے ہوتے ہیں۔چوں کہ امی گھر کے ضروری کاموں جیسے کچن ، کپڑے دھونے یا کسی خوشی و غم میں جانا وغیرہ میں مصروف ہوتی ہے ایسے میں بہن کا رشتہ ایسا ہوتا ہے جو اپنی بھایؤں کے سارے کام بخوشی بھاگتے بھاگتے کرتی ہیں۔ بھایؤں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی خوشی سے برداشت کرتی ہے جبکہ بھائی بھی اپنی بہنوں سے بے حد محبت اور انسیت رکھتے ہیں۔بھایؤں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی بہنوں کو خوش رکھے ان کی ضروریات ان کے ناز اٹھائے اور دلی خوشی کا خیال رکھے۔اور جب کسی کی ایک ہی بہن ہو تو اس کے لاڈ و پیار اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ یہی بہنیں اپنی بھایؤں کے ساتھ بچپن سے چلی اتی ہیں۔

ایک دوسرے کی مزاج کو سمجھتے ہیں ۔کبھی شرارت ، کبھی مستی ، کبھی غصہ ، کبھی ڈانٹ ، کبھی لاڈ و پیار اسی طرح دن رات گزرتے رہتے ہیں۔اور بچے بچپن کی دہلیز عبور کرکے جوانی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جہاں بہنیں دوسرے کے گھر بیاہ اوربھائی کے لئے دلھن لائی جاتی ہے۔یہ قدرت کا قانون ہے اور اسی پر یہ دنیا قائم ہے ۔ لیکن جہاں بھائی کی شادی اور ان کی دلھن لانے کی خوشی ہوتی ہے ۔ بہنیں کپڑے بناتی ہے۔تیاریاں کرتی ہے ۔ اپنی بھاہیوں کی خوشی میں اپنی سھیلوں کے ساتھ اپنی ارمان پوری کرتی ہے ۔ بھائی کی خوشی میں بہنوں کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتی اس لمحے بہنوں کے ناز دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔

جبکہ دوسری طرف یہی بہنیں جو دوست بھی ہوتی ہیں اور بیٹیاں بھی ۔ جب ان کی رخصتی کا وقت اتا ہے تو بھائی کتنا بھی بہادر نہ ہو ، کتنا بھی ڈھیٹ اور سخت نہ ہو لیکن ان کے انکھوں سے انسو نکل اتے ہیں۔ یہ آنسو خوشی اور جدائی کا غم دونوں جذبوں کی ملی جلی قطرے ہوتے ہیں خوشی اس بات کی کہ بہن اس پر فتن دورمیں عزت اور حیا کے ساتھ بیاہ ہو رہی ہے۔ اور غم اس بات کا کہ بچپن کا ساتھی ، بھایؤں لاڈلی ، گھر کی جان جا رہی ہوتی ہے ۔ پشتوں میں ایک ٹپہ ہے ۔
خوئندی چی کینی رونڑہ ستائی
رونڑہ چی کینی خوئندی بل لہ ورکوینہ
(یعنی جب بہنیں اپس میں بیٹھتی ہیں تو بھایؤں کو یاد کرتی ہے اور جب بھائی اپس میں بیٹھ جاتے ہیں تو بہنیں دوسروں کو بیاہ کردیتے ہیں)

جدائی انسان کو دکھی کرتا ہے اس کیفیت کا اندازہ وہ لگا سکتے ہیں جو کبھی خود اس مرحلے سے گزرے ہو۔بہن بھایؤں کا رشتہ بہت ہی محبت اور پر خلوص ہوتا ہے ۔ بہنیں اپنی معصومانہ اور پیار بھری باتوں سے گھر میں خوشیاں بکھیر دیتی ہیں ۔ اور اپنی شوخیوں اور شرارتوں سے گھر کے انگن مہکاتے ہیں۔اگر چی کچھ عرصہ بعد بہنیں اپنی گھروں میں خوش اور بھائی اپنے گھروں میں خوش لیکن جدائی کے یہ لمحات قیامت کی طرح سخت ہوتے ہیں ۔لیکن کچھ دن بعد یہ اداسی خوشی میں بدل جاتی ہے ۔ اپنے گھر میں گھل مل جاتی ہے ۔ زندگی اسی ڈگر پر راونہ ہوجاتی ہے۔ زندگی شاید اسی کا نام ہے ۔ خوشی ، گم اور جدائی کو اگر زندگی سے نکالا جائے تو زندگی بے معنی ہوجائے گی ۔ اور جب زندگی بے معنی ہو جائے تو جینے کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے ۔

قدرتی طور پر بہن بھائی کے درمیان زہنی ہم اہنگی اور پیار پایا جاتا ہے۔ اگر بہنیں اپنی بھایؤں کے لئے دعائیں اور قربانیاں دیتی ہے تو بھائی بھی اپنی بہنوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے ۔ بہنیں بڑی محبت سے اپنی بھایؤں کی بکھرے چیزیں ترتیب اور سلیقے سے رکھتی ہیں۔بھایؤں کے پسند و ناپسند کا خیال رکھتی ہیں اور اگر کہی کسی بات پر بہن روٹھ بھی جائے تو بھائی سے یہ ناراضگی زیادہ دیر برداشت نہیں ہوتی اور بڑی چاہت سے اسے مناتے ہیں ۔ بھائیوں اور بہنوں کی نوک جھونک اور چھوٹی موٹی لڑائیاں تو اس تعلق کا خاص حصہ ہوتا ہے اور یہی سب اس خوبصورت رشتے کی رونق ہیں ۔

پس خوش نصیب ہے وہ بھائی جو اپنی بہنوں کے ہر جائز خوشیوں کے امین ہیں ۔ جو اپنی بہنوں کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں ۔ ان کو بوجھ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے انمول تحفہ سمجھتے ہیں اور ہروقت ایس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنی بہنوں کو خوشیاں دو اوران کے لئے اسانی اور سھولت کا باعث بنو،اور خوش نصیب ہے وہ بہنیں جو موجودہ مادی زندگی میں ایسے بھائی پائے جو ان کو بوجھ نہیں مانتے بلکہ ان کو دل میں بسائے رکھے ۔ ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھ سکے ۔ جو زندگی ی ہر موڑ پر ان کے ساتھ ہو۔ بہنیں بھایؤں کو دعائیں ہی دے سکتی ہیں جو ان کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے ۔ اور خوش قسمت بھایؤں کو یہ سرمایہ ملتا رہاتا ہے ۔ اور بدبخت بھائی اس قیمتی سرمائے سے محروم ہوتے ہیں ۔

بھرحال ہم مسلمان بھایؤں اور بہنوں کو اسلامی احکامات کو بھی مدنظر رکھنا ہے ۔ بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے ایک حدیث شریف ہے جس پر میں اپنے مضمون کا اختتام بھی کررہاہوں مگر اس ایک حدیث کو اگر دل سے پڑھا اور اس پر عمل کیا جائے تو ہم جنت کے مستحق بن سکتے ہیں ۔

آپ ﷺ نے فرمایا جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوںیا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں وہ ان سے اچھا سلوک کرے اور ان کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرے تو اس کے لئے جنت ہے۔(جامع ترمذی جلد نمبر 1حدیث نمبر 549 حدیث مرفوع)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے