وہ جانتا ہے ،وہ نہیں جانتا ہے

وہ جانتا ہے کہ انتہائی حساس اور اعلیٰ نوعیت کے اجلاس کی مبینہ تفصیلات قارئین تک پہنچاناآزادی صحافت کا کامریڈ بننے کے لئے کتنا ضروری ہوتاہے،لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ ہائی پروفائل خبر رپورٹ کرنے کے لئے کتنا احساس اور ذمہ داری درکار ہوتی ہے،وہ جانتا ہے کہ نام نہ بتانے کی شرط پر خبر دینے والے ذرائع کس قدر قابل اعتماد،بے خوف اور باوقار ہوتے ہیں،لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ یہ ذرائع اصل میں کس ذریعے کے ذرائع ہوتے ہیں،وہ جانتا ہے کہ اعلیٰ حکام کی خبر بریک کرنے کے بعد تصدیق،تردید،اعتراف،انکار،مذمت اور خاموشی جیسے عناصر ترکیبی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں،

نئی بحثیں جنم لیتی ہیں،صحافی کو گوگل پر پذیرائی ملتی ہے،اس کی ریٹنگ کے مینار بلندی کی طرف پرواز کرتے ہیں،بین الاقوامی ایکسپوژر ملتا ہے،لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ صحافی کی اصل طاقت سچائی اور ذمہ داری ہوتی ہے،مقدار کی بجائے اقدار اس کا زیور ہوتا ہے،تخریب اور تشکیک کی بجائے تخلیق اور تحقیق اس کے قد و قامت کا تعین کرتی ہے،وہ جانتا ہے کہ کسی اہم شخصیت یا قومی ادارے کے خلاف رپورٹ کرنے کے بعد مذکورہ کی پوزیشن کمزور ہو جاتی ہے،اگر خبری کردار خاموش رہے تو خبر کی تصدیق سے موسوم کر دیا جاتا ہے اگر ردعمل ظاہر کرے تو غصہ،بغض،عناد اور آزادی اظہار پر قدغن سے تشبیہ دی جاتی ہے،لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ خبر کے لوازمات اگر پورے نہ ہوں تو وہ خبر زیادہ دیر زندہ نہیں رہتی،

وہ جانتا ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں بلکہ بند کمروں میں ہونے والے اجلاسوں کی روداد مکمل جانتا ہے ،لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کے میڈیا گروپ،ایک کاروباری ادارے،قومی ائیرلائن کے سربراہ اور حکومت وقت کا آپس میں کیا تعلق ہے،وہ جانتا ہے کہ صحافی اسے کہتے ہیں جس کو پڑوسی ملک سمت مغربی حلقوں سے تائیدی سرٹیفیکیٹ ملے،لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ صحافت دراصل صحیفہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مقدس صفحات کے ہیں،وہ جانتا ہے کہ پاکستان کے اکثر ادارے اور شخصیات اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ میڈیا اس وقت ملک میں طاقت کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے،اور اس کے بعض پیشہ ور کردار اس طاقت کے نشے میں چور ہو چکے ہیں ،جو دخل در معقولات کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے