شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟

پوری امتِ مسلمہ میں کون ہے جو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو پوری امت کا مشترکہ اثاثہ نہ سمجھتا ہو۔ اقبال نے تو انہیں ’قافلہ سالارِ عشق‘ اور ’نکتۂ پرکارِ عشق‘ جیسے القابات سے یاد کیا۔ اقبال تو اس امت کی زبوں حالی پر نوحہ بھی یوں پڑھتا ہے کہ ’قافلۂ حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں‘۔ یہ الفاظ اور سیدنا امام حسین ؓ کی ذات سے عشق، اقبال کے ہاں ایک تسلسل کا نام ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جب بھی کہانی دہرائی جائے گی قافلہ سالاری سیدنا امام حسین ؓ کے سرکا تاج رہے گی۔

کوفہ کی سرزمین پر کربلا کے المناک سانحے کے بعد بےوفائی کا ایک اور باب رقم ہو رہا تھا۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی، ہشام بن عبدالملک کے دور میں کوفہ تشریف لائے تو وہاں آپ نے ایک خطبہ ارشاد کیا‘ جس میں کہا:
’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیز سخت ناگوار ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حالت میں کہ ان کی امت کو نہ میں نے معروف کا حکم دیا ہو اور نہ منکر سے منع کیا ہو‘‘۔
کوفہ میں منصور بن المعتمر نے لوگوں سے زید بن علی کے لیے بیعت لینا شروع کی۔ اس زمانے میں اہلِ سنت کے امامِ اعظم امام ابو حنیفہ، بنی امیہ کے ظلم و تشدد کا مسلسل شکار ہو رہے تھے۔ منصور بن المعتمر اور امام ابو حنیفہ دونوں راتوں کو چھپ کر ملتے اور روتے رہتے۔ چند اور بزرگوں، مسلمہ بن کہیل اور نبیل الاعمش کی کوششوں سے کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید بن علی کی بیعت کر لی۔ حضرت زید نے جب قیام کا ارادہ کیا تو فضیل بن زبیر کو قاصد بنا کر ابوحنیفہ کے پاس بھیجا۔ یہاں امام ابو حنیفہ کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ انہوں نے کہا:

’’خروجہ یضاھی خروج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم البدر‘‘
(زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہﷺ کی بدر میں تشریف آوری سے مشابہ ہے۔)
اس کے بعد حضرت زید نے دعوت جہاد دی اور فرمایا:
’’ہم تم کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تمہیں بلاتے ہیں کہ آئو ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔
اس پر چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی۔

اس کے بعد بے وفائی کی ایک دلگداز داستان ہے، حیلوں اور بہانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایسے سوالات کوفہ والوں نے اٹھائے جو آج بھی اس امت مسلمہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ چال چلن بھی وہی رکھا جو کوفہ والوں کا مسلم بن عقیل اور سیدنا امام حسین ؓ کے ساتھ تھا۔ صبح جب حضرت زید بن علی میدان میں نکلے تو ان کے ساتھ اتنے ہی جانثار تھے جتنے رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ بدر میں تھے یعنی 313۔ یوں امام ابوحنیفہ کے قول پر اللہ کی جانب سے مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ ان کا خروج رسول اللہﷺ کی بدر میں آمد سے مشابہ ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک اور خونچکاں باب رقم ہوا اور یہ جانفروش شہید کر دیے گئے۔ اس وقت شیعانِ علی بھی موجود تھے اور اہلِ سنت بھی لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی ایک میں بھی اختلاف موجود نہ تھا۔ یہ تھی اس امت کی روایت جو صدیوں چلتی برصغیر تک پہنچی۔

برصغیر میں مسلک شیعہ اور مسلک سنی باہم ساتھ ساتھ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے صدیوں یہاں زندگی کرتے رہے۔ برصغیر میں مسلکی طور پر پہلا شیعہ خاندان سید سالار دائود غازی اور سید سالار مسعود غازی کا تھا، جو 1030 عیسوی میں اودھ کے علاقے میں آ کر آباد ہوا۔ ان کی اولاد میں سے سید عبداللہ زر بخش اور سید زید شہسوار نے بارہ بنکی کے قریب زید پور شہر آباد کیا۔ اسی دور میں ہندوستان کی چند ریاستوں کے سربراہ بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے جن میں اودھ‘ سندھ اور ملتان قابل ذکر ہیں۔ اس دور سے 1857ء میں انگریزوں کے قبضے تک یہاں ہر طرح کے حکمران برسر اقتدار آئے۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر مغل بادشاہوں تک، ان کی حکومتوں میں اہم عہدوں پر شیعہ بھی رہے اور سنی بھی۔ ان میں کبھی کبھار سیاسی نوعیت کا اختلاف ہو بھی جاتا لیکن وہ ان لوگوں کی ذاتی اقتدار کی جنگ ہوتی۔ یہ جنگ مسلک کی جنگ نہیں بنتی تھی۔ ہمایوں کی ایران سے واپسی کے بعد بہت سے ایرانیوں کی برصغیر آمد کے بعد اس مسلک کو فروغ ملا اور عزاداری، مرثیہ خوانی اور مرثیہ نویسی نے رواج پایا۔

پورے مغلیہ دور میں کسی ایک معمولی سے شیعہ سنی فساد یا دنگے کی کوئی خبر موجود نہیں۔ یہاں تک کہ روبنسن (Robinson) جیسا مُؤرخ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو تقسیم کا درس دینے کے لیے ”Sepratism among Indian Muslims“ لکھی، وہ بھی کسی ایک واقعے کا تذکرہ نہ کر سکا جس میں شیعہ سنی فساد نظر آتا ہو۔ حالانکہ التمش سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک پورے برصغیر پر فقہ حنفیہ نافذ تھی اور قاضی اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے، سب اس پر متفق تھے اس لیے کہ دونوں مسالک کے علماء یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے جو قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ان میں دونوں کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ چوری، زنا، جھوٹ، غیبت، قتل میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا اور ان سب کی سزا مقرر ہے۔ زکوٰۃ اور عشر میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ جو اختلافات تھے وہ فروعی نوعیت کے تھے اور جو الزامات تھے وہ بھی مجمع باز خطیبوں اور ذاکروں کے پیدا کردہ تھے یا پھر افسانہ طراز مؤرخوں نے انہیں ہوا دی۔ یہی اس امت کی اصل روح تھی کہ اختلاف کی عزت کی جائے اور نیت کو اعمال کا معیار سمجھا جائے۔

پہلا شیعہ سنی فساد 1906ء میں لکھنؤ میں ہوا جو انگریز حکمرانوں کی ’’برکت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد 1907ء اور 1908ء میں بھی فسادات ہوئے اور معاملہ باہم افہام و تفہیم سے علماء نے طے کر لیا اور مسلم معاشرے میں رواداری قائم رہی۔ 1906ء کے فسادات کیسے ہوئے؟ اب یہ کوئی راز نہیں۔ کوئی شخص بھی برطانیہ میں انڈیا آفس لائبریری میں تمام مکتوبات دیکھ سکتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل 18 اپریل 1939ء کے اس خط میں موجود ہے جو گورنر ہیگ (Heig) نے وائسرائے لنلتھگؤ (Linlithgow) کو تحریر کیا۔ یہ خط اس لیے تحریر کیا گیا تھا کہ 1939ء میں پھر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لکھنؤ میں جہاں محرم کے دنوں میں تعزیہ اور علم کے جلوس نکلا کرتے تھے، وہیں سنی اپنی مساجد میں مدح صحابہ کے نام سے مجلس منعقد کیا کرتے تھے، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1906ء میں انگریز نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ’’مدح صحابہ‘‘ ایک نئی اختراع ہے اس لیے محرم کے دو دنوں، چہلم اور یومِ شہادتِ علی کے دن اس پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام دنیا کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ ہم نے یہ امن کے لیے کیا ہے، لیکن اصل میں یہ ایسی شرارت تھی جس نے آگے چل کر اس فساد کا بیج بویا۔ اس کی تفصیل Heig papers MSS.EUR.F.125.102 IOR میں موجود ہے اور انڈیا آفس لائبریری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد پورے برصغیر میں محرم کے جلوسوں کے روٹوں کے لائسنس انگریز ڈپٹی کمشنروں نے جاری کیے۔ آپ تمام شہروں کے روٹ ملاحظہ کریں تو ان میں شرارتاً خاص طور پر ایسے مقامات شامل کیے گئے جہاں آج نہیں تو کل کسی بھی وقت فساد برپا ہو سکتا ہے یا کروایا جا سکتا ہے۔

1935ء میں چہلم کے دن کچھ مقامات پر ’’مدح صحابہ‘‘ پر پابندی کو غیر قانونی سمجھ کر سنی مساجد میں توڑا گیا۔ اس کے بعد 1936ء میں ذوالحج سے صفر تک کے مہینوں میں ہر جمعہ کو مدح صحابہ کو معمول بنایا گیا، قانون کی خلاف ورزی پر انگریزوں نے ہزاروں سنیوں کو گرفتار کر لیا حالانکہ دوسری جانب سے کوئی احتجاج نہ تھا۔ آگ لگانے کے لیے یہ کافی تھا۔ فسادات شروع ہوئے۔ جھانسی ڈویژن کے کلکٹر جسٹس ایلسوپ (Allsop) کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ 1909ء کے احکامات میں کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ 28 مارچ 1938ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ: The Sunni recitation were allowable in theory, but were actually provocative and should be disallowed. آگ بڑھانے کے لیے یہ فقرے کافی ثابت ہوئے کہ ’’سنی مدح صحابہ کتابی طور پر تو صحیح ہے لیکن عملی اظہار شرانگیزی ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ سنیوں نے اس پر سول نافرمانی کی ایک تحریک شروع کی۔ ادھر ملک میں انتخابات کے بعد جمہوریت آ گئی تھی۔ کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ 31 مارچ 1939ء کو کانگریس حکومت نے مدح صحابہ پر سے پابندی اٹھا دی اور سول نافرمانی کی تحریک ختم ہو گئی۔ لیکن اس دوران دونوں جانب گزشتہ پچاس سال سے نفرت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ یوں مارچ، اپریل اور مئی 1939ء میں شیعہ مسلک کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ اٹھارہ ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو دونوں گروہوں نے منصف مقرر کیا لیکن چونکہ اختلافات کو اس طرح پالا گیا تھا کہ دوسری جانب سے تبریٰ کو بھی سرعام کرنے کی اجازت مانگ لی گئی اور اس پر از خود عمل بھی شروع ہو گیا جس پر شدید فسادات نے جنم لیا۔ یہ تمام معاملات اور کہانی گورنر ہیگ کے خطوط میں درج ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1940ء میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے عوامی مقامات پر مدح صحابہ اور تبریٰ پر پابندی لگا دی۔

یہ ہے وہ تاریخ کہ آگ بھی خود بھڑکائی اور پھر اسے ایک دوسرے کے گھروں میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کس قدر بدنصیب ہیں ہم اور کس قدر ناسمجھ ہیں ہمارے فرقہ پرست کہ محرم کے جلوسوں کے وہ روٹ جنہیں انگریز ڈپٹی کمشنروں نے فساد کے ممکنہ امکانات کے لیے ڈیزائن کیا تھا، اسے کربلا کی طرح مقدس سمجھتے ہیں اور مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر سال یہ قوم دعائیں کرتی ہے فسادات سے نجات کے لیے، دنیا بھر کی انتظامیہ ان مقامات پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی فساد ہو جاتا ہے اور کوئی مل بیٹھ کر ان سب کو محفوظ راستوں پر لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کس قدر بدقسمت ہیں ہم کہ انگریز جو لکیریں کھینچ گیا، اسے مقدس سمجھ کر خون بہاتے ہیں۔ صوبے انگریز نے بنائے، آپ انہیں بدل کر دکھائیں، ضلعوں‘ تحصیلوں میں ردوبدل پر فساد، جلوس کے قدیمی روٹ پر جھگڑا۔ کوئی ہے جو عقل سیکھے۔ اس برصغیر میں نفرت کا بیج بونے والے انگریز کے قانون اور احکامات کو بدل دے۔ اس سارے فساد پر آج بھی انگریز فاتح ہے جو نفرت کا بیج بو گیا۔

ایک اور بہت بڑا سوال امتِ مسلمہ میں مسلکی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم برداشت اور خونریزی کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برصغیر میں موجود تیس سے چالیس ہزار انگریز ہی اس کے واحد ذمہ دار ہیں؟ کیا ہمارے علماء نفرت کی آگ میں حصے دار نہیں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نفرت کا سبق نہیں پڑھایا؟

برصغیر کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے جیّد ترین علما نے مدتوں اس بات پر اپنی توانائیاں صرف کیں کہ مخالف مسلک کے عقائد اور ان کے علما کی تحریروں میں کون سے نقائص ہیں۔ زور دار اور پُر جوش رسالے لکھے اور تمام مکاتبِ فکر کے مدرسوں میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس کے بعد منبر و محراب ہاتھ آئے تو اپنی شعلہ بیانیوں کا سارا زور مخالف کو کذّاب، بےدین، گمراہ، اور بالآخر کافر کہنے پر صرف کیا۔ شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث سب نے اس میں پورا پورا حصہ ڈالا۔ ردِّ بریلویت، ردِّ دیوبندی، ردِّشیعہ اور ردِّ غیرمقلدین جیسے موضوعات پر آپ کو ایک وسیع مواد ہر مکتبۂ فکر میں مل جائے گا۔ وہ، جن کے اسلاف قرآن و سنت کے ہر پہلو کو لوگوں پر روشن کیا کرتے تھے، جو کبھی پوری دنیا میں کفرو شرک کے مقابلے میں توحید کے علمبردار تھے، جو سیّدالانبیاءﷺ سے عشق کی مشعل روشن کرنے کے نقیب ہوا کرتے تھے، ان کا سارا زورِ بیان اس بات پر صرف ہونے لگا کہ فلاں شخص یا گروہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، فلاں دل میں سیّدالانبیاءﷺ کے احترام کی مشعل روشن ہے یا بجھ چکی۔ مشرک، بدعتی، گستاخِ رسول، منکرینِ اولیاء، گستاخِ صحابہ اور منکرینِ اہل بیت جیسے موضوعات ہمارے مذہبی اکابرین کا پسندیدہ موضوع بن گئے۔

گزشتہ چالیس سالوں سے میں ہر مکتبہ فکر کے علما کی دھواں دار تقریروں سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ کانفرنس توحید کے نام پر منعقد ہوتی ہے لیکن تقریریں پڑوس کی مسجد کے امام اور اس کے اسلاف کی ہرزہ سرائی کے ذکر سے بھری ہوتی ہیں، مجلس میلاد سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سجائی جاتی ہے اور شعلہ بیانیاں اپنے اسلاف کی تعریف و توصیف اور دوسروں کی گستاخیوں کی داستانیں بیان کرنے پر صرف ہو جاتی ہیں۔ آلِ رسول ﷺ کی محفلوں کا تو غضب ناک پہلو یہ ہے کہ فقرے گھما پھرا کر ایسے بولے جاتے ہیں کہ پوری بستی جو اس محفل میں شریک نہیں، یزید کی فوج قرار دے دی جاتی ہے۔ ادھر بات شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شروع ہوتی ہے مگر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جوشِ خطابت لوگوں سے دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لیے کفر کے نعرے نہ لگوا دے۔ یہ تقریریں اور یہ ’’علمی‘‘ مواد اور تحقیق و تنقیص کا یہ عمل ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے، لیکن ان ڈیڑھ سو سالوں سے ایک سو بیس سال انتہائی امن اور سکون کے ہیں۔ کوئی دنگا، فساد، سر پھٹول یا قتل و غارت نہیں۔ لیکن گزشتہ تیس سال ایسے ہیں کہ جیسے ہر لمحہ سولی پر لٹکا ہوا ہو۔

ان تیس سالوں میں ایسا کیا ہوگیا؟ اگر آج ہم نے اس پر غور نہ کیا تو اگلے سوسال ہم ایک دوسرے کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ان تیس سالوں میں اس مسلم خطے کے سیاسی حالات میں ایسی اہم تبدیلیاں آئیں جن کا اثر یہاں کے صدیوں پرانے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی حالات پر پڑا۔ ایک پُرسکون جھیل جیسی مسلم معاشرت میں ہلچل مچ گئی۔ افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور ایران میں انقلاب آگیا۔ یہ دونوں واقعات جنگ عظیم اوّل کے بعد مسلم اّمہ کی خلافت کی مرکزیت کے ختم ہونے اور جدید سیکولر قومی ریاستوں کے بعد سب سے بڑے واقعات تھے۔ ایران میں، انقلاب نے جہاں سیکولر قومی ریاست کی بنیادیں ہلادیں، وہیں افغانستان کا جہاد بھی خلافتِ اسلامیہ کے قیام کا نعرہ لے کر اٹھا اور طالبان کی صورت قائم حکومت نے مغرب کی سیکولر ریاستیں قائم کرنے کی جدوجہد کو غارت کر دیا۔ ان انقلابات کے نتیجے میں پورے خطے میں ایک بےیقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ تمام حکمران جنہیں پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغرب نے اپنے کا سہ لیسوں کی حیثیت سے مسلّط کیا تھا، اپنے ممکنہ انجام کی وجہ سے خوفزدہ ہوگئے اور یوں ایک کشمکش اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اس کشمکش اور جنگ کا ایندھن وہ مواد بنا جو سو دو سال سے اس امت کے مختلف مسالک کے علماء نے وقتاً فوقتاً تحریر کیا تھا۔ ا یک دوسرے کے ردّ میں لکھی گئی کتابیں اور کفر کے فتوے گرد آلود تہہ خانوں سے نکالے گئے اور پھر انہیں چاروں جانب پھیلا دیا گیا۔

اسی زمانے میں ایک اور چیز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے ان تمام علماء اور ذاکرین کے بےمحابہ خطاب صرف اپنی اپنی مساجد اور امام بارگاہوں تک محددو تھے لیکن جس طرح اس دور میں پہلے آڈیو کیسٹوں اور ویڈیو کیسٹوں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جیسے فنکاروں کو مقبولیت بخشی، ویسے ہی ان علماء اور ذاکر ین کی آڈیو اور وڈیو کیسٹوں نے انہیں راتوں رات ملکی اور غیر ملکی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ کیسٹیں عام دکانوں پر دستیاب ہونے لگیں۔ شیعہ ذاکر کی کیسٹ سنی گاہک کے ہاتھ میں اور سنی مقرر کی کیسٹ شیعہ گاہک کے ہاتھ میں آگئی۔ مدتوں ان لوگوں کو ان کے مولوی بتایا کرتے تھے کہ فلاں مسلک کا مولوی یا ذاکر ہمارے بارے میں یہ کہتا ہے اور پھر نفرت کا بیج بویا جاتا تھا۔ لیکن اب تو وہ سب کچھ ایک دلیل کے طور پر مخالف فرقے کے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا۔ وڈیو اور آڈیو سے سب کچھ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پرمنتقل ہوتا چلا گیا۔ ادھر گھر گھر کمپیوٹر آیا تو یہ سارا نفرت انگیز مواد عام آدمی کی دسترس میں چلا گیا۔ آڈیو، ویڈیو کیسٹ یا سی ڈی اور ڈی وی ڈی خریدنے کے لیے پھر بھی زحمت اٹھانا پڑتی تھی، بازار جانا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ آیا تو یہ تمام مواد یوٹیوب سے ہوتا ہوا فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس کی صورت میں ہر شخص کے گھر یہاں تک کہ موبائل تک جا پہنچا۔ اب نہ دکان پر جانے کا ترددّ، نہ کیسٹ اور سی ڈی خریدنے کی زحمت، راہ چلتے موبائل پر انٹرنیٹ کھولو اور نفرت کے ثبوت کے طور پر کسی بھی مولوی یا ذاکر کی تقریر سنا کر آگ لگوا دو۔

یہاں ایک عجیب منطق پیش کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر ہر طرح کا جھوٹ اور افواہ چل رہی ہوتی ہے، لیکن یہ جھوٹ اور افواہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہبی قائدین کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو ہوتی ہے جسے ایک عام کمپیوٹر جاننے والا شخض بھی بڑی آسانی سے پہچان سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ میں بولی جانے والی نفرت کی زبانیں اب گھروں کے دالانوں تک جا پہنچی ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایسا نہیں کہتے، یہ ہم پر الزام ہے، اس کے جواب میں سامنے والا موبائل پر کسی نہ کسی کی تقریر نکال کر سنا دیتا ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس نے اس سیاسی اور علاقائی طور پر پیچیدہ صورتحال کو ایندھن فراہم کیا، آگ لگائی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ اس سارے طوفان میں نہ دیوبندی کو فتح حاصل ہوئی نہ بریلوی کو، نہ شیعہ جیتا اور نہ اہل حدیث۔ مسکراہٹ ان چہروں پر ہے، رقص کناں وہ لوگ ہیں جو مدتوں سے یہ خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کو اللہ، اس کے رسولؐ اور عقائد سے برگشتہ کیا جائے۔ یہ لوگ ہیں جو اس مواد کو اکٹھا کرتے ہیں، کبھی کالم کی صورت پروتے ہیں اور کبھی کسی ٹاک شو میں دھینگا مشتی کرواتے ہیں۔

لوگ سوال کرتے ہیں، حل کیا ہے! جس نے درد دیا ہے وہی دوا دے گا۔، اس امت کے تمام علماء کو اکٹھا ہونا پڑے گا اور ان سب لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا جن کی نفرت پر مبنی تقریریں اور مواد ہمارے درمیان موجود ہے اور ایسے سارے مواد، سی ڈیز اور کیسٹوں کو سر عام جلانا ہوگا، ورنہ اہل نظر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں جبہّ و دستار اور عمامے خون سے رنگین دیکھ رہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے