شرعی احکام اور متوازن رویہ

شرعی احکام میں یسروسہولت اور احتیاط کے پہلو ۔ متوازن رویے کی ضرورت

اسلامی شریعت کے امتیازات میں سے ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ اس میں انسانوں کے تزکیہ وتطہیر کے لیے ان پر عائد کردہ واجبات اور پابندیوں میں اس امر کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی حکم ان کے لیے مشقت اور تکلیف کا باعث نہ بن جائے۔ قرآن مجید کے متعدد نصوص اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار ارشادات میں شریعت کا یہ مزاج کئی پہلووں سے واضح کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی متعلقہ آیات حسب ذیل ہیں:

سورہ بقرہ میں مریض اور مسافر کے لیے روزے کے احکام میں تخفیف کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا ہے:

”اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا۔ ’’ (البقرہ ۲:۱۸۵)

سورة النساءمیں فرمایا:

”اللہ چاہتا ہے کہ تم سے سختی کو ہٹا دے۔ ’’ (النساء۴:۲۸)

سورة الحج میں فرمایا:

”اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔’’ (الحج ۲۲:۷۸)

لے پالک بیٹے کے حکم کے ضمن میں فرمایا:

”تاکہ مسلمانوں کو اپنے لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ ہو جب وہ ان سے تعلق ختم کر لیں۔ ’’ (الاحزاب ۳۳:۳۷)

تیمم کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا :

”اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کر دے اور اپنی نعمت کو تم پر مکمل کر دے تاکہ شکر ادا کرو۔ ’’ (المائدہ ۵:۶)

کھانے پینے میں حرام اشیا کے ذکر کے بعد فرمایا:

”تو جو مجبور ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ خواہش نفس کے تحت اور ضرورت سے زیادہ نہ کھائے۔’’ (البقرہ ۲:۱۷۳)

دس گنا دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ میں ٹھہرنے کے حکم کو منسوخ کرکے فرمایا:

”اب اللہ نے تمہارے لیے تخفیف کر دی اور جان لیا کہ تمہارے اندر کمزوری ہے۔’’ (الانفال ۸:۶۶)

دیت کا حکم بیان کر کے فرمایا:

”یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی اور مہربانی ہے۔’’ (البقرہ ۲: ۱۷۸)

یتیموں کے مال کو سرپرستوں کے مال میں ملا لینے کی اجازت دینے کے بعد فرمایا:

”اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (لیکن اللہ آسانی چاہتا ہے)۔’’ (البقرہ ۲:۲۲۰)

اسی ضمن میں قرآن مجید سے ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ تورات کے برعکس قرآن مجید میں شریعت کو قصداً بہت مختصر اور محدود رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ تلقین کی گئی ہے کہ جن معاملات کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ نے ازخود بیان نہیں کیا، ان میں سوالات اور استفسارات کے ذریعے سے خدا کے منشا کو متعین طور پر معلوم کرنے سے گریز کیا جائے، تاکہ اجتہادی اختلاف کی گنجائش رہے اور لوگوں کے لیے اپنے اپنے احوال وظروف کے لحاظ سے آسانی اور سہولت کا راستہ کھلا رہے۔ سورئہ مائدہ میں ارشاد ہے:

”اے ایمان والو، ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تم پر واضح کر دی گئیں تو تمھیں مصیبت میں ڈال دیں گی۔ اور جب تک قرآن نازل ہو رہا ہے، اگر تم ان کے بارے میں پوچھو گے تو وہ تمھارے لیے واضح کر دی جائیں گی۔ اللہ نے خود ہی ان کو بیان نہیں کیا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بڑے تحمل والا ہے۔ (المائدہ ۵: ۱۰۱)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت میں فرمایا کہ:

”مسلمانوں کا سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسے معاملے کے متعلق سوال کیا جسے حرام نہیں کیا گیا تھا اور پھر اس کے سوال کرنے کی وجہ سے اسے لوگوں پر حرام کر دیا گیا۔’’ (مسلم، رقم ۶۱۱۷)

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو کہیں روانہ کرتے تو انھیں یہ ہدایت دیتے کہ:

”لوگوں کو خوشخبری دو اور انھیں دور مت کرو۔ ان کے لیے آسانی تلاش کرو اور مشکل میں نہ ڈالو۔’’ (مسلم، ۴۵۲۵)

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہمارا ایک ساتھی سر پر پتھر لگنے سے زخمی ہو گیا۔ پھر اسے احتلام ہو گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ جب تک تم پانی استعمال کرنے پر قادر ہو، ہم تمھارے لیے رخصت نہیں پاتے۔ چنانچہ اس شخص نے غسل کر لیا اور اس کے نتیجے میں اس کا انتقال ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا:

”اللہ ان کو ہلاک کرے، انھوں نے اس کو قتل کر دیا۔ جب انھیں معلوم نہیں تھا تو انھوں نے دریافت کیوں نہیں کر لیا؟’’ (ابو داود، رقم)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:

”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو باتوں میں انتخاب کا اختیار دیا جاتا، آپ ان میں سے آسان بات کو اختیار فرماتے تھے، جب تک کہ وہ گناہ کی بات نہ ہو۔ اگر گناہ کی بات ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے تھے۔’’ (مسلم، رقم ۵۴۰۶)

البتہ اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ شریعت میں ایک طرف آسانی اور سہولت اور دوسری طرف احتیاط اور تقویٰ کے دونوں پہلو موجود ہیں اور شرعی احکام میں دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں بلکہ ان کے مابین توازن کو ملحوظ رکھنا ہی شریعت کی منشا اور فقہ واجتہاد کی حقیقی روح ہے، چنانچہ شارع کا مقصود نہ یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں آسانی ہی کی راہ کو اختیار کیا جائے اور نہ اس چیز کو اس نے پسند کیا ہے کہ احتیاط کا پہلو اس قدر غالب ہو جائے کہ دین میں سہولت اور یسر کا پہلو ہی معدوم نظر آنے لگے۔ پہلا رویہ انسان کو بالکل سہل پسند اور بعض اوقات شرعی حدود کی پاس داری سے بے پروا بنا دیتا ہے اور بالآخر وہ مشقت برداشت کرنے کے اس جذبے سے ہی عاری ہو جاتا ہے جو شریعت کو ایک خاص درجے میں بہرحال انسان سے مطلوب ہے، جبکہ دوسرا رویہ انسان کو شرعی احکام اور پابندیوں سے نفور بنا دیتا اور انسان کی طبیعت میں آمادگی اور شوق کے اس پہلو کو ختم کر دینے کا موجب بن جاتا ہے جو اطاعت اور امتثال امر کا اصل حسن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اکابر اہل علم اور مجتہدین کی آرا میں ہمیں ان دونوں پہلووں کی رعایت دکھائی دیتی ہے۔ صحابہ اور تابعین اور ائمہ مجتہدین کی فقہی آرا کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی مجتہد ایسا نہیں جو ہر مسئلے اور ہر حالت میں یک طرفہ طور پر صرف یسر یا صرف احتیاط کے پہلو پر زور دیتا ہو۔ تمام مجتہدین اپنی اپنی بصیرت کے لحاظ سے کہیں ایک پہلو کو ترجیح دینے کو شریعت کی منشا تصور کرتے ہیں اور کہیں دوسرے پہلوکو۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ترجیح کے لیے کوئی بے لچک ریاضیاتی یا منطقی قواعد وضع نہیں کیے جا سکتے، اس لیے کہ اس کا مدار زیادہ تر اس بات پر ہوتا ہے کہ فقیہ کے سامنے جو متعین مسئلہ یا صورت حال رکھی گئی ہے، اس میں اس کے فہم اور بصیرت نے برسرموقع اس کی کیا راہنمائی کی ہے، چنانچہ ایک فقیہ درپیش صورت حال، مبتلی بہ کے حالات اور معاملے سے متعلق دوسرے پہلووں کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کر سکتا ہے کہ یہاں یسر اور سہولت کا پہلو اختیار کیا جانا چاہیے اور یہ رائے بھی قائم کر سکتا ہے کہ یہاں احتیاط اور تورع کے پہلو کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں قلت علم اور قلت تحمل کی وجہ سے عام طور پر یہ رویہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کسی مسئلے میں ایک خاص پہلو سامنے آنے پر جو لوگ اس کے ساتھ زیادہ طبعی موافقت محسوس کرتے ہیں، ان کے ہاں اس سے مختلف رجحانات کے لیے تحقیر کا رویہ پیدا ہو جاتا ہے اوروہ علمی آرا کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے بجائے ایک غیرمعتدل اور جذباتی طرز فکر کے نمائندہ بن جاتے ہیں۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے قابل اصلاح ہے۔ شارع کی نظر میں اصل قدر وقیمت اس چیز کی ہے کہ کسی صاحب علم نے دیانت داری کے ساتھ اپنے فہم، ضمیر اور احساسات کی روشنی میں کس طریقے کو شارع کی منشا کے قریب تر تصور کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جب شریعت میں یسر اور احتیاط کے دونوں پہلو اصولی طورپر موجود ہیں تو فروعی اجتہادی مسائل میں ان میں سے کسی ایک پہلو کو متعین کرتے ہوئے اصحاب علم کا اختلاف ہو جانا ایک بالکل فطری امر ہے، چنانچہ اپنے مقصود یعنی شارع کی منشا کے قریب تر رہنے کے لحاظ سے سہولت کا انتخاب کرنے یا احتیاط پر کاربند رہنے کے دونوں رویے قابل احترام ہیں اور اس احترام کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے