یہ سافٹ ہدف نہیں تھا

یہ سافٹ ہدف ہرگز نہیں تھا ۔ وہ دہشت گرد جن کی کمر ٹوٹنے کی نوید چند ماہ قبل دی گئی تھی نہ جانے کیسے اتنے حساس علاقوں میں پہنچ کر بے گناہوں کا خون بہا جاتے ہیں ۔ یہاں ہر سفاک حملے کے بعد کچھ جملے اور کچھ حرکتوں کا تکرار ہوتا ہے :

1۔ بزدل دشمن اب شکست کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔

2۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور اب وہ نرم اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں

3۔ سب سے پہلے فلاں جنرل صاحب ہسپتال میں‌ زخمیوں‌کی عیادت کے لیے پہنچے وغیرہ

4۔ جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کے لیے 10 لاکھ جبکہ زخمیوں کے لیے پانچ لاکھ کا اعلان کر دیا۔

5۔ آخری دہشت گرد تک کے خاتمے تک کارروائی جاری رکھیں گے ۔

6۔ بھارتی ایجنسیاں ایسے بزدلانہ حملوں کے ذریعے سی پیک کو ناکام بنانا چاہتی ہیں ۔

8۔ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے ۔

9۔ دشمن جان لے کہ ایسے حملے دہشت گردی کے خلاف قوم اور پاک فوج کے عزم کو کمزور نہیں‌ کر سکتے

10۔ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کر دی گئی ہے ۔

یہ ڈھکوسلے کب بند ہوں گے؟ کب تک اس مبہم جنگ کی قیمت یہاں کے نہتے باسی ادا کرتے رہیں گے ۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لینے والے اب بھی سیاست دانوں کی نااہلی کو دوش دیں گے ۔

انصاف کی بات یہ ہے کہ جو امن کا کریڈٹ آگے بڑھ کرلیتا ہے وہی بدامنی کے مضمرات کے بارے میں جواب دہ ہونا چاہیے ۔ صرف اہل سیاست کو سخت سست کہہ کر پوائنٹ اسکورنگ کا حربہ آخر کب تک مقبول رہے گا۔

کوئٹہ بہت بڑا شہر نہیں ہے ۔ وہاں اس قبل کئی حملے ہو چکے ہیں جن میں بے شمار لوگوں کی زندگی کا چراغ گل ہوا۔ وہاں موجود سیکیورٹی اداروں کی تنصیات بظاہر بہت سخت حفاطتی حصار میں ہیں ۔ اگر وہ بھی محفوظ نہیں‌ہیں‌تو کھلی سڑکوں اور بازاروں کا تو خدا ہی حافظ ہے ۔

بے چہرہ جنگوں میں ابہام کیش کیا جاتا ہے ۔ اس ابہام کو حملہ آوراورحفاظت پر مامور لوگ دونوں اپنے اہنے انداز میں کیش کرتے ہیں ۔ جناب ابہام ختم کیجیے تاکہ منظر واضح ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے