لائن آف کنٹرول توڑنے کی کال یاسیاسی شعبدہ بازی

کشمیر میں جاری حالیہ تحریک نے سب کو جھنجھوڑ کر جگایا ہے۔ ایسے میں کئی لوگ کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی اور کشمیر کاز سے خلوص کے تحت کسی نہ کسی سرگرمی میں حصہ لے رہے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جن کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے یہ موقع نعمت لگ رہا ہے ، ہر سطح پر ، وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ، کوئی نہ کوئی سرگرمی ہوتی نظر آرہی ہے۔

آزاد کشمیر کی قدیم ترین اور ماضی کی معتبرترین جماعت ’مسلم کانفرنس‘ کے صدر نے لائن آف کنٹرول توڑ نےکی کال دی ہے اور وہ آج کل اس کے لئے رابطہ مہم میں مصروف ہیں۔ خبر ہے کہ ’پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے ، تاہم حسب سابق بیس کیمپ کی حکمران جماعت حمایت سے انکار ی ہے۔

لائن آف کنٹرول توڑنے کی اس قسم کی کال کی ایک تاریخ ہے کہ یہ کوشش ہمیشہ ہی ناکام رہی ہے اور بیس کیمپ کی اپنی حکومت کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے ، حتیٰ کہ کئی لوگوں کی جانیں بھی گئی ہیں۔ حالانکہ کشمیری ’جنگ بندی لائن ‘جو اب’لائن آف کنٹرول ‘ہے ، کی پابندی کے مجاز نہیں ہیں۔

[pullquote]*جنگ بندی لائن سے لائن آف کنٹرول
[/pullquote]

1948 میں ہونے والی انڈیا پاکستان کی جنگ بالآخر اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنوری 1949ختم ہوئی اور دونوں ملکوں کی افوج جس جگہ پر تھیں ، وہیں پیش قدمی سے روک دیا گیا اور یہ حد جنگ بندی لائن کہلائی۔ 1972 میں ہونے والے شملہ معاہدے میں نہ صرف مسئلہ کشمیر کو ’دو طرفہ معاملہ ‘ قراردیا گیا بلکہ اس جنگ بندی لائن کو بھی ’لائن آف کنٹرول‘ بنا دیا گیا۔

یہ ایک نئی اصطلاح تھی ، بین الاقوامی سرحد اور جنگ بندی لائن کے بیچ کی کوئی چیز ، شاید ‘سیمی انٹرنیشنل بارڈر‘۔ قانونا یا اخلاقا ، کسی بھی طرح کشمیری اس کے احترام کے پابند نہیں ہیں کیونکہ کشمیری اس معاہدے کے فریق نہیں ہیں ، لیکن جب بھی کشمیریوں نے اس لکیر کو پار کرنے کی کوشش کی ، ان کو نہ صرف حکومت پاکستان کی طرف سے بلکہ آزادکشمیر کی اس وقت کی حکومتوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

[pullquote]*جنگ بندی لائن عبور کرنے کی کوششیں
[/pullquote]

جنگ بندی لائن عبور کرنے کی کوششیں آزاد کشمیر کے عوام اور سیاسی جماعتیں شروع سے کرتے آ رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ کوشش کبھی بھی کامیاب نہ ہوسکی اور بہت سی سیاسی جماعتوں نے اس کوشش کا سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی استعمال کیا۔

پہلی بار جنگ بندی لائن عبور کرنے کی کوشش 1958 میں کی گئی۔ کشمیر لبریشن موومنٹ نامی اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے۔ اس تحریک میں عوام کے غیر معمولی جوش و خروش کے علاوہ اس میں سیاست کے نمایاں ناموں میں سردار قیوم اور کے ایچ خورشید کے علاوہ کئی لوگ شامل تھے۔

نہرو سے نان نون سے کشمیر ملے گا خون سے کے نعرے لگاتا یہ مجمع جب چکوٹھی پہنچا تو فائرنگ اور لاٹھی چارج کی گئی ۔ رہنماوں کی گرفتاریوں کے بعد یہ کوشش ناکام ہو گئی۔

[pullquote]1990 کی دہائی میں یہ کوششیں کئی بار کی گئیں جن میں دو نمایاں تھیں۔
[/pullquote]

۱: قوم پرست طلبہ تنظیم این ایس ایف گلنواز بٹ کی سربراہی میں بڑی تعداد میں لوگ سیز فائر لائن کراس کرنے گئے اور تین لڑکے فائرنگ سے جاں بحق ہوئے اور سربراہوں کو گرفتار کر لیا گیا تو یہ کوشش ناکام ہوگئی ۔اس وقت وزیر اعظم سردار سکندر حیات تھے۔

1991 میں ایک بار پھر امان اللہ خان چئیر مین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ313 لوگوں کو لے کرچلے رمضان میں لیکن شیخ رشید بیچ میں پڑ گئے اور حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بعد واپس آگئے۔

1992 فروری میں ایک ایسی ہی کوشش امان اللہ خان نے دوبارہ کی اور اس بار بھی ناکامی ہوئی لیکن 1992 کے اکتوبر میں ایک بڑی سرگرمی ہوئی ’ضرب حیدر‘ کے نام سے۔ جس میں عوام نے بہت جوش و جذبے سے شرکت کی۔اس میں جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے صدر سردار خالد ابراہیم ، لبریشن لیگ کے سلطان محمود چوہدری اور خواجہ فاروق اور دیگر بھی کئی نمایاں نام شامل تھے ۔

اس ریلی کو عالمی میڈیا نے وسیع پیمانے پر کوریج دی تھی ۔ ضرب حیدر میں تین جگہ سے جنگ بندی لائن کو توڑنا تھا۔ راولاکوٹ والی طرف سے اسکو خالد ابراہیم لرکے چل رہے تھے۔ حسب سابق گولیاں چلائی گئیں ، طاقت کا استعمال ،گرفتاریاں ، چھ لوگوں کی شہادت اور رہنماوں کی گرفتاریوں کے بعد یہ کوشش بھی ناکام ہوئی۔

1993 میں ممتاز راٹھور کو جب وارت عظمیٰ سے الگ کیا گیا تو ایک چھوٹی سی کوشش انہوں نے بھی کی تھی جو چناری میں ختم ہو گئی تھی اور پھر 1999 میں ایک بار پھر لبریشن فرنٹ نے یہ کوشش کی ، اس بار امان اللہ خان کو ہجیرہ سے گرفتار کر لیا گیا تاہم یہ دونوں کوششیں اتنی نمایاں نہیں تھیں۔ اب ایک بار پھر مسلم کانفرنس کے سردار عتیق نے کال دی ہے ، یہ کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ تو24 نومبر کو ہی پتہ چلے گا۔

[pullquote]المیہ
[/pullquote]

المیہ یہ ہے کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر کے سیاست دان جب اقتدار سے الگ ہوں تو مسئلہ کشمیر کے حل اور آزادی کی بات کرتے ہیں اور اسی طرح آزادکشمیر والے اپنا کھویا سیاسی مقام حاصل کرنے کے لئے کشمیر کے نام پر حمایت حاصل کرتے ہیں۔

1958 میں چوہدری غلام عباس کے سردار ابراہیم کے ساتھ اختلاف تھے اور ان کو تقریبا آزاد کشمیر کے اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا اس وقت ان کی حمایت سردارقیوم صاحب نے بڑھ چڑھ کر کی۔یہ اس وقت ان کے لئے سیاسی مقبولیت استعمال کرنے کا ایک حربہ تھی۔

راو رشید نے اپنی کتاب ’جو میں نے دیکھا ‘ میں لکھا ہے کہ وہ اس وقت بھی وہاں صرف ’ٹہل‘ رہے تھے تو ان کو گرفتار کرلیاگیا۔ وہی سردار قیوم جب 1992 میں اقتدار میں تھے توانہوں نے اس کوشش کو دبانے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیااور خالد ابراہیم ،جن کے والد نے1958 میں اس تحریک کو روکا تھا (بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کا ایک طریقہ ہے) انہوں نے نہ صرف اس کی حمایت کی بلکہ ایک مقام سے ریلی کو وہی لے کر چلے۔

پھر ممتاز راٹھور کو جب اقتدار سے الگ کیا گیا تو انہوں نے بھی سیاسی مقاصد کے لئے یہ کوشش کی اور اب سردار قیوم کے صاحبزادے دوبارہ وہی حرکت کرنے جا رہے ہیں۔ جو ان کے باپ نے ’بلوغت ‘ سے قبل کی اور بالغ ہونے کے بعد اس کی بھر پور مخالفت کی۔ اب ان کے بیٹے اپنا کویا ہوا سیاسی مقام حاصل کرنے کے لئے وہی جرم کرنے جا رہے ہیں تو ثابت ہوا کہ وہی چیز جو اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے مشن اور عقائد ہوتی ہے وہی اقتدار میں ہوتے ہوئے ’’عشق ممنوع اور جرم‘‘ بن جاتی ہے۔ یادش بخیر۔

1992 کی تحریک کے جواب میں مسلم کانفرنس نے اس کوشش کے ردعمل کے طور پر ’’تکمیل پاکستان‘‘ریلی نکالی تھی جن کے دوران کراچی میں لبریشن فرنٹ کے کارکنوں کے ساتھ بڑا جھگڑا ہوا تھا۔جنگ بندی لائن پرامن طور پر عبور کرنے کی یہ کوشش اگر خلوص سے کی جائے تو کتنی موثر ثابت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ کے ایل ایم کی ناکامی کے بعد جب نہرو جنرل اسکندر مرزا سے ملے تو کہنے لگے ’آپ کا شکریہ ہمیں کے ایل ایم سے بچا لیا ورنہ ہم مشکل میں تھے کہ پرامن کشمیریوں کو سرحد پر کیسے روکیں گے۔(قائد کشمیر از بشیر قریشی) لیکن یہ کوشش ہمیشہ علامتی طور پر سیاسی امیج بہتر بنانے کے لئے سیاسی شعبدہ بازی کے طور پر کی جاتی رہی ہے۔ قوم پرستوں کے لئے یہ’کاز‘ ہے کیونکہ آج تک جتنے بندے شہید ہوئے وہ قوم پرست جماعتوں کے تھے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ کشمیر کے لئے کی جانے والی کسی بھی مثبت کوشش سے عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں ۔ جس سے یہ واضح ہوا کہ کشمیر کے لئے کچھ نہ کر سکنے کے باوجود آج بھی لوگ دلی طور پر کشمیر کاز سے بے پناہ لگاو رکھتے ہیں۔ اس بار یہ جذبہ مزید ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ قبل ازاں یہ وطیرہ تھا کہ مظفرآباد یا اسلام آباد میں گنتی کی کچھ سرگرمیاں ہوتی تھیں اور بس لیکن اس بار ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر تک لوگ خود سڑکوں پر آئے ہیں۔

امید ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد جنگ بندی لائن توڑنے کی کال پر اس بار بھی لبیک کہے گی تاہم خدشہ یہ ہے کہ ’’پولیٹٰکل پوائنٹ سکورنگ ‘‘ کے لئے کی جانے والی یہ حرکت ’’شیر آیا ، شیرآیا ‘‘ کی تان ہی نہ ہو کہ جب شیر واقعی آئے تو اس وقت کوئی بھی مدد کو نہ آئے۔ اگر اس کا مقصد صرف عالمی توجہ مبذول کروانا ہے اور یہ ایک علامتی ریلی ہے تو پھر تو شاید سکون سے نمٹ جائے لیکن اگر اس کے نتیجے میں کوئی بڑا نا خوشگوار واقعہ ہوا تو نہ تو وہ پاکستان کے حق میں ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ کشمیری بھی اس وقت اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

(ضمنا یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ حرکت ملٹری ڈیموکریسی کے وکیل کی جانب سے پاکستان میں مارشل لا کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش نہ ہو۔ کیونکہ 1958 والی تحریک سے بھی کچھ لوگوں نے یہی تاثر لیا تھا )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے