عمران خان صاحب سے گزارشات

اگر دیکھا جائے تو میں اپنا اگلا ایک آدھ گھنٹا برباد ہی کرنے جارہا ہوں کیوں کہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میں اس بیانئے میں جو کچھ لکھوں گا نہ تو عمران خان کا اس پر کچھ اثر پڑنے والا ہے نہ ہی ان کے چاہنے والوں پرلیکن پھر بھی کوشش کرکے دیکھنے میں کچھ حرج نہیں ۔

شاید میری تحریر میں کوئی ایسی دلیل یا بات ہو جو اس سے پہلے ان لوگوں نے نہ دیکھی ،سنی ہو اور وہ پڑھ کر شاید کچھ سوچنے پر ہی مجبور ہو جائیں ۔میرے نزدیک عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے طرز فکر میں کچھ بنیادی نقائص ہیں ۔ آئیے ان پر اور ان کے جوابی دلائل پر غور کرتے ہیں ۔

[pullquote]بری جمہوریت کا علاج بزور طاقت حکومتی تبدیلی ہے![/pullquote]

عمران صاحب آپ اپنے ہر بیان میں ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں کچھ کر گزرنے کی بات کرتے نظر آئیں گے ۔ یعنی آپ نے ان کے منہ سے اکثر سنا ہو گاموجودہ حکمرانوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا، تعلیم کی زبوں حالی بھی اسی حکومت کے دور میں سب سے زیادہ ہوئی ہے، صحت کے معاملات تو اب ٹھیک ہوہی نہیں سکتے ، امن و امان کی بربادی کے ذمے دار لوگ ہم پر حکومت کررہے ہیں ۔تازہ ترین یہ کہ حکمراں بدترین کرپشن کا شکار اور ملک ڈبونے کے ایجنڈے پر عمل پیراہیں وغیرہ وغیرہ ۔

عمران خان صاحب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تمام مسائل نہ تو چند دنوں میں پیدا ہوئے اور نہ ہی ان مسائل کا حل چند دنوں میں نکل سکتا ہو۔ یہ تمام مسائل دہائیوں کی ہماری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور ان کا حل بھی مہینوں نہیں برسوں میں ہی ممکن ہے۔(یاد رہے وہ مسائل نوے دنوں میں حل کرنے کا بھی کہہ کرمکرچکے ہیں ) مزید برآں یہ کہ یہ تمام مسائل وہ ہیں جنہیں سیاسی جماعتیں انتخابات لڑ کرحکومت میں آنے کے بعد حل کرنے کا وعدہ عوام سے کرکے آتی ہیں اور الیکشن ہی وہ فورم ہے کہ جہاں اس طرح کے مسائل پر گفتگو، اس کے حل کیلئے لائحہ عمل کا تعین اور ایک طرح سے اس کی عوامی منظوری لی جاتی ہے۔اس طرح کے مسائل کے حل کیلئے الیکشن کے کچھ عرصے بعد ہی افراد اور حکومتوں کی بساط لپیٹ دی جائے، ایسا نہ تو کسی جمہوری معاشرے میں ممکن ہوتاہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔بری جمہوریت کا علاج پالیسیوں پر تنقید ، ان کی اصلاح کی کوشش اور اچھی جمہوریت لانے سے ہی ممکن ہے اوربس۔

[pullquote]مسلسل اور بزورطاقت احتجاج اپنی بات منوانے کاسب سے موثرطریقہ ہے![/pullquote]

عمران خان اور ان کی پارٹی الیکشن 2013کے کچھ عرصے بعد ہی سے احتجاجی سیاست کرتی آئی ہے۔ پہلے دھاندلی کا نعرہ لگا کر پھر دیگرپارٹیوں سے چپقلش کے نام پر اور پھر پانامہ لیکس کے ایشو پر پی ٹی آئی نے احتجاج کو مین اسٹریم پالیٹکس میں آخری آپشن کے بجائے پہلے ہتھیار کے طور پر آزمانے کی روایت ڈالی ہے جسے کسی بھی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری جانب کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد ، پی ٹی آئی نے کئی بار مختلف شہروں کو بزور طاقت بند کرنے ، شہریوں کی زندگی میں رکاوٹ ڈالنے اور عام کاروبار کی زبردستی بندش کی کوشش کی ہے اور اسے اپنا آئینی حق گردانا ہے ۔ اس روش کی بھی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی۔ احتجاج یقیناً سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہوتا ہے لیکن صرف اس وقت تک جب وہ حق دوسروں کے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہ ہو۔ اپنے حق کیلئے ہم کسی دوسرے شہری کی زندگی عذاب میں نہیں ڈال سکتے نہ اس سے کاروبار اور آمدورفت کا حق بزور طاقت چھین سکتے ہیں۔سیاسی احتجاج کارکن یا عوام رضاکارانہ طور پرکرتے ہیں نہ کہ زبردستی ۔دوسری جانب سیاست میں بہرحال گفتگو اور مصالحت کی گنجائش رکھناپڑتی ہے اور یہی چیز سیاست کو فاشزم اورآمریت سے ممتاز بناتی ہے ۔ یہی جمہوریت کا چلن ہے۔

[pullquote]الزام لگاؤ پھربھول جاؤ![/pullquote]

نجم سیٹھی ہوں،سابق چیف جسٹس یا کوئی اور ۔عمران خان اور ان کی پارٹی نے بہت سے لوگوں کے بارے میں ایسے دعوے کیے جن کے ہزار بار دہرائے جانے پر گویایقین کا سا گماں ہونے لگا تھا۔ وہ تمام دعوے الزامات کی ایک سے بڑھ کر ایک قسم ثابت ہوئے کہ جس نے ثبوتوں کا منہ نہ دیکھا۔کوئی الزام محض ’’سیاسی گفتگو ‘‘نکلا اور کچھ عدالتوں میں جا کر وہیں کے ہو رہے۔ ایسا انھوں نے مختلف اداروں اور ان کے سربراہان کے بارے میں بھی کیا اور پھر اپنی سہولت سے اسے ’’بھول‘‘ گئے ۔ایف بی آر، پنجاب پولیس، نیب ،الیکشن کمیشن غرض آپ ذہن پر زور دیتے جائیے اور اس طرح کے کئی ادارے اور حضرات آپ کو یاد آئیں گے جو وقتاً فوقتاً خان صاحب کے نشانے پر ہے لیکن اب وہ شاید ان کے نام بھول چکے ہیں یا ان کو ’’نئے نشانے ‘‘ مل چکے ہیں۔یہ بات بہرطور یاد رکھنے اور ذہن نشین کرنے والی ہے کہ اس طرح کے سنگین الزامات نہ تو آپ اتنی فراوانی سے لگا سکتے ہیں نہ ہی اپنے سامنے اٹھنے والی ہر آواز کو آپ ان الزامات تلے دبا سکتے ہیں ۔ کیوں کہ ہر بات اور الزام کا بہر حال اپنا وزن ہو تا ہے اور اس طرح دھڑلے سے ہر وقت، ہر کسی پر الزام لگانے سے نہ صرف آپ وہ وزن کھو بیٹھتے ہیں بلکہ ایک وقت وہ آتا ہے کہ آپ کی کسی بھی بات کو کوئی اثر لینے کے لائق نہیں سمجھتا۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کیلئے اس طرح کا تاثر ، سیاسی موت کے مترادف ہوتا ہے ۔

[pullquote]حکومت میں ہو کر خود کو اپوزیشن سمجھنا![/pullquote]

اس بات میں کچھ کلام نہیں کہ خان صاحب صرف اپوزیشن کی سیاست جانتے ہیں ۔ ان کی طرز سیاست پر بہت بات کی جاسکتی ہے لیکن ان کاموجودہ سیاسی ویژن سمجھ سے باہر ہے ۔ان کی باتیں ، ان کے اقدامات اور ان کی سیاسی چالیں ہمیں اس بات کا احساس ہونے ہی نہیں دیتیں کہ پی ٹی آئی پاکستان کے ایک صوبے میں حکمراں ہے ۔ اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا کے حالات میں بہتری لانے کیلئے پانچ سال کا عرصہ ملاہے اور اس عرصے میں درست حکمت عملی اور حکومتی مشینری کا موثر استعمال اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کافی ہے کہ 2018میں بھی خیبرپختونخوا میں ان ہی کی حکومت ہو۔

یہ کچھ گزارشات تھیں جو میں خان صاحب اور ان کے احباب سے کرنا چاہتا تھا۔ یقیناً میری یہ رائے حرف آخر نہیں اور یقیناً اس پر مزید گفتگو بھی کی جاسکتی ہے۔ ابھی کیلئے صرف اتنا ہی وہ بھی اس یقین کیساتھ کہ ا ن باتوں میں دیگر افراد اور جماعتوں کے سوچنے سمجھنے کیلئے بھی کافی مواد موجود ہے اگر کوئی سوچنا سمجھنا چاہے تو۔

محمد خرم صدیقی میڈیا سے وابستہ ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر ہینڈل nawwabsahab@ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے