قلم کے کتے

سیرل المیڈا نے انتہائی نامعقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوءے تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنان کے لیے "کتے” کا لفظ استعمال کیا ہے.

اپنے کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر راحیل شریف کو یقین نہ ہوا کہ نواز شریف کو ان کی محدود دائرے میں واپس جانے اور وہیں رہنے پر قائل کیا جا سکتا ہے تو نواز شریف پر احتجاجی کتے چھوڑ دیے جائیں گے.

سوال یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت کے کارکنان کو احتجاجی کتا کہنا ایک معقول طرز عمل ہے. سیاسی کارکنان سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، آپ ان پر تنقید بھی کر سکتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ یہ اہل سیاست ہی ہیں جو سخت اور نازیبا تنقید بھی برداشت کر جاتے ہیں لیکن ان کو احتجاجی کتا کہنا بیمار نفسیات کا مظہر ہے.
یہ زبان و بیان گلی کے کسی آوارہ لونڈے کا نہیں ڈان اخبار کے معزز کالم نگار کا ہے جن کے بارے میں ہمیں بڑی وارفتگی سے بتایا جاتا رہا کہ صاحب کوئی معمولی صحافی نہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں.

اب جب ایک بات آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ لکھ رہے ہیں تو وہ کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ زیادہ امکان یہی ہے کہ ٹاٹ سکولوں سے پڑھے میرے جیسے لوگ اس اصطلاح میں پنہاں نزاکتوں کو نہیں سمجھ پائے ہوں گے. ہم دیہاتی لوگ اگر آکسفورڈ سے پڑھے ہوتے تو ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ اصطلاح استعمال کرنا گالی نہیں ہوتی.

اب تحریک انصاف کا کوئی کارکن جوابا کہ دے کہ احتجاجی کتے تو معلوم نہیں کوئی چھوڑے گا یا نہیں لیکن قلم کے کتے چھوڑے جا چکے ہیں تو کہیں آزادی صحافت خطرے میں تو نہیں پڑ جائے گی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے