غداری کا اصل مفہوم

آتی جاتی، پھر آتی پھر جاتی اور جیسے آتی ویسے ہی جاتی حکومتوں کی پیدا کردہ صورت حال اس صورت حال سے گہری مماثلت رکھتی ہے جو ہمارے ہاں اورنگزیب کی وفات سے لے کر برطانوی تسلط کے آغاز تک برقرار رہی تھی۔ پاکستان میں حکمرانی کے موجودہ بحران اور اس بحران کے خالق حکمران طبقہ کے فکر و احساس اور چال چلن کو سمجھنے کے لیے اس خوفناک مماثلت پر غور و فکر لازم ہے۔

اٹھارویں صدی میں بلادِ اسلامیہ ہند کے سیاسی زوال، معاشی استبداد اور معاشرتی انتشار کا مطالعہ ماضی کے مزار پر نوحہ گری کی بجائے مستقبل کی صورت گری کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔ ہماری قومی تاریخ میں ۱۷۰۷ء میں اورنگ زیب کی وفات سے لے کر ۱۸۵۷ء میں برٹش انڈین ایمپائر کے قیام تک کا زمانہ اورنگزیب کے نااہل جانشینوں کا عہد کہلاتا ہے۔ قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ ہمیں ڈیڑھ صدی کی مہلت دی کہ ہم اپنے اجتماعی انحطاط و انتشار پر غور و فکر سے زوال کے اسباب کا پتہ لگائیں اور پھر ان اسباب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں سرگرمِ عمل ہو جائیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے اسباب زوال ہی کو سرچشمۂ فیضان جانا اور زوال پسندی کو اپنا مسلک بنا لیا۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی جن تبدیلیوں کے لیے چیخ اور دھاڑ رہی تھی وہ حکمران طبقے کے مفادات سے متصادم تھیں اس لیے اس طبقے نے زندگی کی اس چیخ و پکار پر اپنے کان بند رکھنے کے لیے طاؤس و ربب اوّل، طاؤس و رباب آخر کا طرزِ حیات اپنا لیا۔ اندر اور باہر سے بلادِ اسلامیۂ ہند پر قبضہ جمانے کو بے تاب جتنی بھی قوتیں سرگرم کار تھیں یہ طبقہ ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے کبھی تو یکے بعد دیگرے اور کبھی بہ یک وقت ان سب کی غلامی قبول کر کے اپنے اقتدار کو بچانے اور رعایا کو جہنم میں جھونکنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۷۸۰ء میں جب وارن ہیسٹنگزنے بنارس کے حکمران پر حملہ کر کے اسے اپنے محل میں محبوس کر دیا تو حکمران نے حملہ آور سے معاہدہ کرنے کی خاطر منت سماجت شروع کر دی۔ مذاکرات نے طول پکڑا تو بنارس کی مقامی آبادی نے مشتعل ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج پر دھاوا بول دیا۔ نتیجہ یہ کہ فوج پسپا ہو گئی۔ وارن ہیسٹنگز بھاگ کھڑا ہوا مگر عوامی گیت اس کا پیچھا کرتے چلے گئے:

گھوڑے پر ہودہ رکھا اور ہاتھی پر زین
بھاگ گیورے یاں سے وارن ہیسٹین

یہاں سے بھاگ کر ہیسٹنگزنے اودھ میں آصف الدولہ کے ہاں جا پناہ لی۔ اس بھگوڑے کے شاہانہ استقبال اور اس کے لیے عشائیہ میں انواع و اقسام کے کھانوں اور مشروبات کی جزئیات میر تقی میر کی آپ بیتی’’ذکر میر‘‘ کے دو صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ بنارس کی ذلت آمیز شکست کا داغ مٹانے کی خاطر:

’’راتوں کو رقصندگان پروی وش، نہیں نہیں حوران بہشتی سے بڑھ کر دلکش۔ شیشے اور چینی کے گلدان سلیقے سے چنے ہوئے۔ طاق تازہ میوؤں سے بھرے ہوئے۔ فرنگی رقص، خوشی کا تماشا۔ بلکہ گھر ہی خوش کا مکان۔ شادمان کی ہوا۔ شام کو چراغاں کر کے، آتش بازی چھوڑتے تھے۔ ستارہ اور ہوائی آسمان تک پہنچ رہی تھیں۔ چراغاں کا نظارہ دل کو لبھا رہا تھا اور مہتابی رات کو دل کا نمونہ بنا رہی تھی‘‘۔ (ذکر میر۔ صفحہ ۳۱۹)

ستم ظریفی یہ کہ سورج کی آنکھوں کو چندھیا دینے والے زربفت کے سائبان تلے داد عیش دینے والے مہمان اورمیزبان ہر دو پیسے کی ہوس میں باؤلے ہو رہے تھے۔ ہیسٹنگز کو اپنی جنگی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے پیسے کی اشد ضرورت تھی تو آصف الدولہ کو عیش و نشاط کی لَے بلند رکھنے کی خاطر۔ چنانچہ Fish and Chips پر گزارہ کرنے کے خوگر، ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق کلرک، وارن ہیسٹنگز کو آصف الدولہ نے یہ راہ سجھائی کہ خود آصف الدولہ کی ماں اور دادی کے خزانہ اور جائیداد پر ہاتھ صاف کیا جائے۔ اس زمانے میں ابھی مارکٹ اکانومی دنیا سے متعارف نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی قومی املاک بیچ کر سیرو سیاحت کے ذوق کی تسکین کا چلن شروع ہوا تھا اس لیے بیچارے مہمان اور فیاض میزبان کو حصولِ زر کی یہ حکمتِ عملی اپنانا پڑی۔

یہ طرزِ فکر و عمل کچھ اودھ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ ہمہ گیر تھا۔ لگ بھگ نصف صدی پیشتر جب نادر شاہ کی فوجیں دہلی کے شہریوں کے جان و مال اور
عزت و آبرو کے لیے خطرہ بنی ہوئی تھیں اور بادشاہ اور امراء نادر شاہ کو موعودہ رقم ادا کرنے میں ناکامی کے باعث مجبور و لاچار ہو کر رہ گئے تھے تو ایک سہ پہر دہلی کے غریب لوگ گھروں سے نکلے اور قابض فوجیوں کو چن چن کر قتل کرنے لگے۔ اس پر نادر شاہ نے دہلی میں قتل عام شروع کرا دیا۔ حکمرانوں کے پاس اس صورت حال سے نبٹنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ گلے میں پٹکا ڈال کر اور گھٹنوں پر گر کر اور رو رو کر معافی مانگی جائے۔ چنانچہ اس زمانے کے صاحبزادوں، نوابزادوں نے نادر شاہ کی سی قتالہ عالم کو تو اپنی وفاؤں سے رام کر لیا مگر قتل عام سے بچ نکلنے والی رعایا کے دل سے اپنا رہا سہا اعتبار بھی ختم کر دیا۔ سودا کی ہجویات اور میرؔ کی غزلیات حکمران طبقے سے عوام کی گہری نفرت کا آئینہ ہیں۔ اگر شیدی فولاد خان کوتوال چوروں، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی،رہنمائی اور حفاظت کو اپنا حقیقی فرض منصبی سمجھنے لگا ہے تو میر ؔ پورے حکمران طبقے کو یوں یاد کرتے ہیں:

چند لچے ہیں مستعد کار
دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار
نتیجہ یہ کہ:
چور، اچکے، سکھ، مرہٹے جو بھی ہیں زر خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بڑی دولت ہے یہاں

میر تقی میر نے اس شعر میں خواجگان زرپرست کی جو فہرست پیش کی ہے ہماری تاریخ مصر ہے کہ اس میں خود بادشاہ و امراء کو بھی شامل کیا جائے۔
مولوی خیرالدین کی ’’تاریخ عبرت افزا‘‘ میں آیا ہے کہ جب شاہ عالم ثانی، غلام قادر روہیلہ کو موعودہ رقم نہ دے پایا تو اس نے بادشاہ کی ہمشیرہ، ملکہ زمانیہ یعنی ادھم بائی اورصاحبہ محل کو الٹا الٹا کر گرم تیل ان کے پیروں پر ڈالنا شروع کر دیا تو ان عزت مآب بیگمات نے کوڑوں کے تواتر میں چند دفینوں کے راز بتلا دیئے۔ اس زمانے میں ابھی سوئٹزرلینڈ اور وال سٹریٹ میں بنک قائم نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے غریب وقلاش ملک کے یہ ابتذال کی حد تک امیر لوگ زر و جواہر کو دفینوں میں چھپا کر رکھا کرتے ہیں۔ ان چند دفینوں میں سے سونے چاندی کے برتنوں سے بھرے ہوئے صندوق اور ہزاروں اشرفیاں اور روپے برآمدہوئے۔

یہ منوں سونا ان امراء کو اس قدر عزیز تھا کہ اس کو بچانے کی خاطر وہ اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیگمات کو سر دربار عریاں رقص کرتے دیکھنا بھی گوارہ کر لیتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل رقص کے دوران غلام قادر روہیلہ اپنا سرولی عہد مرزا اکبر کے زانو پر رکھ کر سوتا بن گیا اور اپنی تلوار اور چھری دور رکھ دی مگر یہ جان کر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ تیمور کے کسی بیٹے یا بیٹی نے اس کا کام تمام کر دینے کی بات نہ سوچی۔ اس سے علامہ اقبال نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’غیرت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے‘‘اور ظالم غلام قادر نے خودکو خدا کے اس قہر سے تعبیر کیا جو خدا نااہل حکمرانوں پر مسلط کر دیا کرتا ہے۔

قومی زوال و ادبار کی مرثیہ خواں تاریخ نویسی اور ادبی سوانح نگاری نے آج تک ہمارے حکمران طبقہ کی ذہنیت بگاڑ رکھی ہے۔ شاہ عالم ثانی اس کے فوری پیش روؤں اور جانشینوں سے سابق ڈومینوں کے بطن سے تولد فرمانے والے شہزادوں، شہزادیوں کے آنسو اور آہیں ہماری قومی مرثیہ خوانی کا عزیز ترین سرمایہ ہیں اور ہم شاہ عالم ثانی جیسے میر جعفر کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی خو میں راسخ چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ہاں قیادت کا بحران ختم ہونے میں ہی نہیںآتا۔ ہمارے سیاستدان اورنگزیب کے نااہل جانشینوں کی ’’میرجعفریت‘‘ کو اپنا مطمأ نظر بنائے بیٹھے ہیں اور ہمارے ادیبوں کو زوال پسندی کے مسلک سے علیحدہ کرنا گویا۔۔۔ہو گیا گوشت کا ناخن سے جدا ہو جانا۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں میر جعفر کے اس گناہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جس کے باعث جہنم تک نے اسے قبول کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔باری علیگ اپنی کتاب ’’کمپنی کی حکومت‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’انگریزوں نے سراج الدولہ کی تخت نشینی کے موقع پر رسمی تحائف نہیں بھیجے تھے۔ انگریز سراج الدولہ کے خلاف سازش میں شریک تھے۔۔۔امی چند کے ذریعہ میر جعفر کے دل میں تخت و تاج کی خواہش پیدا کرائی گئی۔ میر جعفر سازش میں شریک ہو گیا۔ میر جعفر نے وعدہ کیا کہ اگر اس کونواب بنایا گیا تو وہ انگریزوں کو جنگی اخراجات کے علاوہ ایک کروڑ پچھتر لاکھ روپیہ دے گا۔۔۔میر جعفر نے نواب کی مدد کرنے کی جگہ کلائیو کو تمام حالات سے آگاہ کر دیا۔جب کلائیو نواب کے محل میں داخل ہوا تو میر جعفر اس کے استقبال کے لیے گیا۔ اس نے گدی پر بٹھلاتے ہوئے نواب کو ایک سو اشرفیوں کی نذر پیش کی اور ایک ترجمان کے ذریعہ نواب کے امیروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نئے نواب کا وفادار رہنے کا مشورہ دیالیکن انگریزوں نے جب دیکھا کہ میر جعفر سے زیادہ میر قاسم مفید ہوسکتا ہے تو انہوں نے میر جعفر کو تخت سے علیحدہ کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ سراج کی زندگی میں کمپنی کے ذمہ دار ارکان نے ایسے مکتوب لندن روانہ کیے جن میں سراج الدولہ کو ظالم اور جعفر کو رحم دل ثابت کرنے میں انگریزی ادبیات کی تمام بلاغت صرف کر دی لیکن اب اسی جعفر کے قلمی چہرے کو اس قدر تاریک پیش کیا جا رہا تھا کہ جعفر، سراج سے کہیں زیادہ ظالم دکھائی دینے گا۔۔۔میر قاسم نے کمپنی کو بیس لاکھ روپیہ نقد دیا۔ بنگال کے تین زرخیز اضلاع انگریزوں کے حوالے کیے۔ کمپنی کو اپنا سکہ جاری کرنے کی اجازت دی لیکن انگریز کا کاسہ آز ہنوز خالی تھا۔ سونے کا پہاڑ بھی اس سنہری بھوک کے لیے ناکافی تھا۔‘‘ (صفحہ ۱۵۵تا۱۸۸)

اب اسی کلائیو کے ساتھ شاہ عالم ثانی کے معاہدہ پر ایک نظر ڈالیے جسے باری علیگ نے یوں بیان کیا ہے:

’’شاہ عالم گو ہندوستان کا شہنشاہ تھا لیکن اس کی حیثیت ایک بے ملک نواب، سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ بھی نواب وزیر کے ساتھ الہ آباد میں مقیم تھا۔ کلائیو نے برائے نام شہنشاہ کی شہنشاہیت کو تسلیم کر لیا۔اس نے کورہ اور الہ آباد کے اضلاع شاہ عالم کے حوالے کر دیئے تاکہ وہ ان اضلاع کی آمدنی سے ظاہر شان و شوکشت قائم رکھ سکے۔ اب کلائیو نے شاہ عالم کو ترغیب دی کہ وہ بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی کو چھبیس لاکھ روپیہ سالانہ کے بدلے کمپنی کے حوالے کر دے۔ شہنشاہ سے کمپنی کے نام پر دیوانی حاصل کرکے کلائیو نے بنگال، بہار اور اڑیسہ میں کمپنی کی حیثیت کو مضبوط کر دیا ۔ دیوانی کے حصول میں کمپنی کو موقع دے دیا کہ وہ اپنے مبقوضات پھیلانے میں مصروف ہو جائے۔‘‘(صفحہ۹۰)

گویا اس معاہدہ پر کاربند رہنے سے لے کر قلعہ معلی میں لارڈ لیک کی فوجوں کے استقبال تک،شاہ عالم ثانی بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ میر جعفر کے نقشِ قدم پر چلتا رہا۔ میر جعفر مر گیا مگر اس کی روح اب تک زندہ اور سرگرمِ کار ہے۔ میر جعفریت نام ہے ہوسِ اقتدار کی خاطر بیرونی طاقتوں کے ساتھ (Package deal) کر کے قومی مفادات کو نیلام کرنے کا۔ اقتدار کی مسند پر براجمان رہنے کے لیے اپنے ملک میں غیروں کے مفادات کی آبیاری کا۔ اقبال نے کس کربناک انداز میں بندۂ فرنگ سے پناہ مانگی ہے:
الاماں از روحِ جعفر الاماں،
الاماں از جعفران ایں زماں

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میر جعفروں کی سرگزشت کو اپنا ماضی سمجھنے کی بجائے اس پر تین حروف بھیجیں کیونکہ یہ ماضی تو اپنے حال میں بھی مردہ بدست ایسٹ انڈیا کمپنی تھا، شجاعت و مردانگی اور غیرت و حمیت کے نام تک سے ناآشنا میر جعفران ’’کارِاُو تخریب خود، تعمیر غیر‘‘کے مصداق بلاداسلامیہ کا شیرازہ منتشر کرنے میں آلہ کار اور برٹش انڈین ایمپائر کے قیام کی خاطر کرائے کے سپاہی کا کردار سرانجام دیتے رہے۔ یہ اسی حکمران طبقہ کی بے عملی اور بداعمالی کا نتیجہ ہے کہ میر تقی میرؔ کی شاعری میں نوحہ گری کا شور بپا ہے:

غیر نے ہم کو ذبح کیا ہے، طاقت ہے نے یارا ہے
اس کتے نے کر کے دلیری صیدِ حرم کو پھاڑا ہے

یہ صیدِ حرم سلطان ٹیپو شہید ہیں،جن سے اٹھارہویں صدی میں ہماری تحریکِ مزاحمت و حریت نیا رنگ و آہنگ پاتی ہے۔ ہمارا یہ ماضی جو کسانوں اور سپاہیوں کی بغاوتوں، علمائے حق کی شورشوں اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک اصلاح کو سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد میں ڈھالنے والوں کی سرفروشی سے عبارت ہے۔قومی و ملی غیرت کی خاطر سر کٹانے والوں کی داستانیں ہمارا ماضی ہے۔ یہ ماضی ہمارے مستقبل کا ماضی ہے۔ اس سے روشنی اور توانائی حاصل کر کے ہم کارزارِ حیات کے آئندہ مراحل طے کر سکتے ہیں۔ جس زمانے میں بادشاہ، امراء اور جاگیردار سونے چاندی کے کشکول اٹھائے اپنوں اور غیروں سے بھیک مانگتے پھرتے تھے عین اسی دور میں سید احمد بریلوی لوگوں کو میدان جہاد میں اترنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ ذرا ان کے استدلال پر غور فرمائیے:

’’جناب کو معلوم ہے کہ پردیسی سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجر اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں۔ بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہلِ حکومت کی حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے۔ جو حکومت اور سیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اس لیے مجبوراً چند غریب اور بے سرسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔۔۔مال و دولت کی ان کو ذرہ برابر طمع نہیں، جس وقت ہندوستان ان غیرملکیوں سے خالی ہو جائے گا اور ہماری کوششیں بارآور ہوں گی حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو ان کی طلب ہوگی۔‘‘

سید احمد بریلوی نے اس خط میں گوالیار کے راجہ ہندو رائے کو برطانوی سامراج کے خلاف اور ملکی آزادی و خود مختاری کی نگہبانی کے لیے جو متحدہ محاذ بنانے کی اپیل کی تھی اگر اسے پذیرائی ملتی تو برصغیرغلامی سے بچ سکتا تھا۔ صد حیف کہ ایسا نہ ہوا مگر ہمارا عقیدہ ہے کہ شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اس زندگی کا ایک ابدی راز یہ ہے کہ وہ خواب بھی ہمیشہ زندہ اور سرسبز و شاداب رہتے ہیں جنہیں عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنائیں شہیدوں کو جاں سے گزر جانے کی سعادت بخشتی آئی ہیں۔ سید احمد بریلوی کے اس پیغام کی عصری معنویت پر غور کرتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ خط ہمارے ماضی کی دستاویز نہیں بلکہ ہمارے حال کی پکار اور ہمارے مستقبل کی نوید ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے