ایچیسن کے ساتھی سیاست کے اکھاڑے میں

عمران خان اور چودھری نثار علی بچپن کے دوست ہیں ۔ دونوں معروف تعلیمی ادارے ایچی سن میں کلاس فیلو اورکرکٹ ٹیم کا حصہ رہے۔ دونوں کبھی تو ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں اور کبھی ان کا دہن بگڑ جاتا ہے ۔

 

 

 

چند دن پہلے تحریک انصاف کے سربراہ نے حیرت ظاہرکی کہ نجانے کس طرح چودھری نثار کا ضمیر نواز شریف کی کرپشن کادفاع کرنا گوارا کرتا ہے۔ یہ بات عمران خان کے منہ سے کیوں نہیں جچی اس کی وضاحت ہم کردیتے ہیں۔

 

 

 

جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمد نے تحریک انصاف کے الیکشن ٹربیونل کے سربراہ کی حیثیت سے تحقیقات کے بعد رپورٹ دی کہ جہانگیر ترین، پرویز خٹک اور علیم خان نے پارٹی الیکشن میں بے ایمانی کی ہے، اس لیے ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ عمران خان نے ایسا کرنے سے چٹا انکارکردیا اور کہا ’’جسٹس صاحب بڑا مشکل ہوجائے گا، میرے لیے اکیلے پارٹی چلانا مشکل ہے ، یہ لوگ چلا رہے ہیں۔ ‘‘

 

 

 

ہمارے دوست اقبال خورشید کو جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے انٹرویو میں بتایا کہ ایک پارٹی اجلاس میں عمران خان نے مذکورہ تینوں شخصیات کے گن گائے تو انھیں بے حد مایوسی ہوئی۔ جسٹس صاحب کے بقول :

انھوں نے (عمران)تقریرکی، اور سمجھیں پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ان ہی تین آدمیوں کی شان میں قصیدے پیش کئے ، جنھیں ہم نے قصور وار

عمران خان کی ایچیسن کے دور کی تصویر
عمران خان کی ایچیسن کے دور کی تصویر

ٹھہرایاتھا۔ وہ بھی سامنے بیٹھے تھے ، ہم بھی۔ ان کا مطلب تھا کہ آپ لوگ جو بات کرتے ہیں ، وہ بکواس ہے۔ یہ اصل لوگ ہیں ۔ یہی پارٹی کو آگے لے کرچلیں گے۔ وہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ ‘‘

ایچی سن کالج سے پڑھے اعتزاز احسن کا معاملہ بھی سمجھ سے اوپر ہے۔ کرپش پر موصوف تلملاتے ہیں مگر ضمیر نے کبھی انھیں آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے کئی دوسروں کی کرپشن پرنہیں جنجھوڑا۔

 

 

 

ایچی سن ہی کے ایک سابق طالب علم خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویزخٹک ہیں ، جو تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل اے این پی کی اس حکومت میں وزیر رہے جسے تحریک انصاف کے لوگ صوبے کی کرپٹ ترین حکومت کہتے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور ان کے درمیان ان دنوں تندو تیز

 

 

 

جملوں کا تبادلہ ہورہا ہے۔ یہ صاحبان ایچی سن کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ فیس بک پر پرویزخٹک کی شادی کے موقع پرنثار علی خان کے ساتھ ان کی تصویرکا بہت چرچا ہے

۔

ایچی سن کی بات ہو رہی ہے تو اس کے ایک اور ہونہار شاہ محمود قریشی کابھی کچھ ذکر ہوجائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ تین سال سے زائد عرصہ وزیر خارجہ رہے۔ ان کو حکومتی بدعنوانی کا پتا نہ چلا۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر انھوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور وزارت سے استعفا دے دیا اور اس کے بعد

سے اپنی سابقہ جماعت کی کرپشن کے قصے بیان کر رہے ہیں۔وزیراعظم بننے کے لیے وہ آصف زرداری کو رام کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے رہے لیکن قرعہ فال یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا۔

سردار ایاز صادق بھی خیر سے ایچی سونین ہیں ۔گذشتہ برس فروری میں الیکشن ٹربیونل میں اپنی آمد کے موقع پرانھوں نے صحافیوں کو ہلکے پھلکے انداز میں عمران خان اور اپنی مخاصمت کی بڑی دلچسپ وجہ بتائی جو بی بی سی اردو نے کچھ اس طرح رپورٹ کی:

”ایاز صادق نے کہا کہ 50سال قبل جب وہ اور عمران خان چوتھی جماعت کے طالب علم تھے تو ایک دن ہاکی کھیلتے ہوئے ان کی ہاکی غلطی سے عمران خان کو لگ گئی جس سے عمران خان کے چہرے سے خون نکلنے لگ گیا۔ اور پھر ان میں کچھ دن کی

ان دنوں فیس بک پر پرویزخٹک کی شادی کے موقع پرنثار علی خان کے ساتھ ان کی تصویرکا بہت چرچا ہے
ان دنوں فیس بک پر پرویزخٹک کی شادی کے موقع پرنثار علی خان کے ساتھ ان کی تصویرکا بہت چرچا ہے

ناراضگی کے بعد صلح ہوگئی تھی لیکن ان کو یہ نہیں پتہ تھا کہ عمران خان 50سال بعد بھی اس بات کو اپنے دل میں رکھیں گے۔‘‘

 

ایاز صادق سیاست میں آئے تو ان کا پہلا انتخاب تحریک انصاف ہی تھی ، 1997ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن اسی کے ٹکٹ پرلاہور سے لڑا۔ مسلم لیگ ن کا حصہ بننے کے بعد انھوں نے دوبار عمران خان کو ہرایا۔عمران خان کا موقف تھا کہ 2013ء میں ایاز صادق دھاندلی کی ذریعے جیتے، جس پر معاملہ الیکشن ٹربیونل میں گیا تو فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا اور سپیکر ڈی سیٹ ہوگئے اوربعد ازاں ضمنی الیکشن جیت کردوبارہ قومی اسمبلی پہنچے ۔ ستمبر میں انھوں نے جب عمران خان کے خلاف ریفرنس تو الیکشن کمیشن بجھوا دیا اور نواز شریف کے خلاف ریفرنس روک کر جانبداری برتی تو ان پرکڑی تنقید ہوئی کیونکہ انھوں نے اپنے عمل سے سپیکر کے عہدے کو بے توقیر کیا لیکن ایک بات یقینی ہے کہ انھوں نے جو بھی کیا اپنے ضمیر کے مطابق کیا ہوگا۔

 

 

 

بات عمران خان، ایچی سن اور ضمیر سے شروع ہوئی تھی ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہماری سیاست میں باضمیر لوگوں کا شروع سے کال رہا ہے۔ تحریک انصاف بڑی بھاگوان تھی کہ

شاہ محمود قریشی جب ایچی سن میں زیر تعلیم تھے
شاہ محمود قریشی جب ایچی سن میں زیر تعلیم تھے

اس میں ایسے ایسے باضمیر آئے جن کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی ۔ ایک تابندہ مثال معراج محمد خان کی ہے۔ ان جیسا کھرا سیاستدان ہمارے یہاں شاید ہی کوئی دوسرا پیدا ہوا ہو۔ بھٹو کے قریبی ساتھی تھے لیکن جب ان کے بعض اقدامات کی تائید ضمیر پر بوجھل محسوس ہوئی تو وزارت سے استعفا دے دیا۔ ان کی ڈٹ کرمخالف کی۔جیل گئے۔

 

 

دوسری مثال جسٹس (ر)وجیہہ الدین احمد کی ہے۔پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے بعد پی سی او جاری کیا توجن چند بااصول اور باکردار ججوں نے اس کے تحت حلف سے انکار کیا ، ان میں وجیہہ الدین احمد بھی شامل تھے ۔

 

 

افسوس !عمران خان نے معراج محمد خان اور وجیہہ الدین احمد جیسے روشن ضمیروں کی قدر نہ کی اور بے ضمیروں کے ٹولے کو اپنے ساتھ ملا لیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے