صحافی،، Haves Not سے Haves تک

یہ Haves اور Haves Not کی لڑائی تھی۔ وہ Haves Not کے ساتھ کھڑا، Haves پر تابڑ توڑ مکے برسا رہا تھا کہ اچانک کسی کمزور لمحے میں ایک Have نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔۔۔
اور۔۔۔
اس کا منہ پھیر کر اسے Haves Not کے سامنے کھڑا کردیا۔ اس کے دیکھنے کا Angle بدلا تو تھوڑی دیر قبل Haves Not کے ساتھ کھڑے ہوکر Haves کی جانب مکے اچھالنے والے کے دل و دماغ کے حالات بدل گئے۔۔۔
اب وہ Haves کے ساتھ کھڑا، Haves Not پر مکے برسا رہا ہے۔

اپنے مالی حالات بدلیں تو دوسروں کو دیکھنے کا زاویہ نگاہ بھی بدل جاتا ہے۔ 90 کی دہائی تک،،، صحافی کا سرکاری اسکولوں، سرکاری اسپتالوں اور محلے کے نکڑ پر موجود تھڑے ہوٹلوں میں آنا جانا بھی تھا اور Haves Not کے ساتھ رابطہ بھی۔۔۔
گزشتہ دس سے پندرہ برسوں میں پبلک ٹراسپورٹ والا صحافی،،، پہلے موٹر سائیکل اور پھر چھوٹی گاڑی سے ہوتا ہوا بڑی گاڑی تک آن پہنچا ہے۔
بچے اب سرکاری اسکول نہیں،،، سٹی، بیکن ہاوس، فروبلز، روٹس بلکہ اس سے بھی بڑے Brands میں پڑھتے ہیں۔
وہ اب سرکاری اسپتال نہیں، مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں میں جانے کے قابل ہو چکا ہے۔
تھڑے ہوٹلوں کی دودھ پتی کی جگہ،اب ” چائے خانہ” کی ورائٹی ٹی اور” گلوریا جینز” کی کافی نے لے لی ہے۔
یوں Haves Not سے Haves کے کیمپ میں پہنچتے ہی ہر "لال” اور "ہرے” صحافی کو "ہری ہری” سوجھ رہی ہے۔
اسے ہر دوسرے Haves کی طرح Haves Not، کیڑے مکوڑے اور جاہل مطلق دکھ رہے ہیں۔
اب کوئی جرنیلوں کا چمچا ہے تو کوئی ججوں کا کڑچھا۔۔۔
کوئی بھٹو کا جیالا ہے، کوئی شریف کا متوالا ہے اور کوئی خان کا کھلاڑی۔۔۔
کوئی مولانا کی "ذہانت” کا قائل ہے تو کوئی بھائی کی "ظرافت” کا۔۔۔
کسی کو ولی کی "حکمت” لبھاتی ہے اور کسی کو اچکزئی کی "تقریر” بہلاتی ہے۔۔۔
بس نہیں بچا تو عوام کا صحافی۔۔۔
وہ ماننے کو تیار نہیں کہ 90 کی دہائی میں خط غربت سے نیچے ایڑیاں رگڑنے والے 25 فیصد، اب ،50 فیصد ہوچکے۔ اپنی "حالت زار” بدلنے سے اس کے دیکھنے کا Angle بدل چکا یوں وہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان میں عوام کی حالت بھی بدل چکی ہے۔
کسی کمزور لمحے، Haves Not کے کیمپ سے Haves کے کیمپ پہنچ جانے والے "باخبر” صحافی، ایک دن صرف ایک دن اپنی گاڑی، گیراج میں بند کر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر تو تجھے پتہ چلے کہ۔۔۔
اندرون پنجاب کے "تنگ محلے” رائے ونڈ میں "تایا شریفے” کی بیٹی مریم کے بالوں میں کب کی چاندی اتر چکی۔۔۔
اندرون سندھ کی "بانس جھونپڑی” گڑھی خدا بخش میں "مامے آصفے” کا بیٹا بلاول ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے۔۔۔
اندرون اسلام آباد کی” کچی بستی” بنی گالامیں "چاچے خانے” کے بیٹوں قاسم اور سلمان کو سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں مل رہا۔۔۔
اندرون نوشہرہ میں لالہ ولی،اندرون ڈیرہ میں مولوی فضل، اندرون کراچی میں بھائی الطاف اور اندرون کوئٹہ میں بابا اچکزئی کے گھر والے دو مرلے کے، کرائے کے گھروں میں "دوا دارو” کو بھی ترس رہے ہیں۔
اور ہاں۔۔۔
اے 2016 کے باخبر ترین صحافی۔۔۔
کبھی موقع ملے تو۔۔۔
” تنگ وتاریک” ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹیوں اور جوڈیشل کالونیوں میں بھی جھانک لینا جہاں بیچارے جرنیلوں اور ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد دو وقت، صرف دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لئے اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو ” ملک صاحب ” کے پاس بھیجنا پڑتا ہے۔
کیونکہ ملک صاحب۔۔۔
سیاستدان ، بیوروکریٹ، مولوی اور وکیل کو "دھندے اور چندے”جبکہ جج،جرنیل اور جرنلسٹ کو "کندھے” کی مار مارتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے