قربانی… قوم ہی دے…!!!

سنا ہے’ میرے دوست اور کولیگز کہتے ہیں کہ میں اپنے فیلڈ کا ایک اچھا اور مستعد اہلکار ہوں… یقین تو نہیں آتا کیونکہ میرے والدین مرحومین کی راے اس کے بلکل مخالف تھی… خیر لوگ کہتے ہیں تو ناک اونچی رکھنے کے لئے لوگوں کی ہی مان لی ہے کہ:

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے

اس تمہید کا مقصد دراصل دوستوں کو اس کیفیت کا بتانا ہے جس کا میں آج کل شکار ہوں… جو آج کل میری طبیعت عجیب سی ہوگئی ہے… جی چاہتا ہے کہ آفس جاؤں کبھی نہ جاؤں… کام کروں یا نہ کروں بس تنخواہ آتی رہے اور مراعات ملتی رہیں… کافی سوچ بچار کی کہ آخر مجھے ہو گیا گیا ہے… کسی نتیجے پر نہ پہنچ پایا تو سر جھٹک کر دماغ خالی کیا’ جو کہ اکثر خالی ہی رہتا ہے’ اور ادھر ادھر کی باتوں میں خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکامی ہوئی… کسی کسی وقت ذہن میں کچھ دھندلے سے خیالات آتے ہیں جو مجھے میری اس کیفیت کا سر رشتہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مجھے یقین نہیں آتا-

یہ دھندلے خیالات مجھے سمجھاتے ہیں کہ میں اس عظیم قوم کا فرد ہوں جس کے حکمران بے دریغ عیاشیاں کرتے ہیں اور قوم کے وسائل اندھا دھند اپنی ان عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں’ اور صرف خود ہی نہیں بلکہ ان کی اولادیں’ بیگمات اور بیگمات نما بھی ان کے اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں… اور پھر یہی حکمران سالانہ بجٹ سے پہلے ہی قوم کو بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ: "قوم قربانی دے” اور یوں نیے نیے ٹیکسوں کا بوجھ قوم پر لاد دیتے ہیں-

یہی معاملہ قوج جیسے ادارے کا ہے… خود سیاسی جماعتیں بنانے یا توڑنے میں’ کسی کو لیڈر بنانے یا کسی موجود لیڈر کو گرانے میں’ سیمنٹ’ کارن فلیک’ چینی کی فیکٹریاں لگانے’ رئیل اسٹیٹ کا بزنس چلانے’ اپنے بچوں کے لئے دیگر ممالک کے تعلیمی اداروں امن سکالرشپس ڈھونڈنے اور بیگمات کے لئے دوسرے ملکوں کی نیشنلٹی لینے میں مصروف رہتے ہیں… اور جب ملکی دفاع کی باری آتی ہے تو قوم کے بچوں کو پرائیویٹ جہاد کی ٹریننگ دے کر میدان میں اتار دیتے ہیں کہ جاؤ اور ملک کا دفاع کرو’ کابل’ سری نگر اور دہلی کا لال قلعہ فتح کرو-

اسی طرح بیرون ملک سفارت خانوں اور کونصل خانوں میں موجود سفیر و کونسلر بھی بجاے اس کے کہ اپنے ملکی و قومی مفادات کا تحفظ کریں’ اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت کو وہاں متعارف کروائیں’ اس ملک میں موجود اپنے ہم وطنوں کے سرپرست بنیں… یہ حضرات و خواتین صرف سرکاری پارٹیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں یا پھر ان ملکوں میں بھی غیر نصابی سرگرمیوں اور اپنے ذاتی کاروباری اثاثے جوڑنے’ بنانے کے چکر میں اپنا اکثر وقت استعمال کرتے ہیں… اور پھر موقع بہ موقع اس ملک میں موجود اپنے ہم وطنوں کو کہتے پھرتے ہیں کہ: "آپ سب اس ملک میں اپنے ملک کے سفیر ہیں لہذا اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنا اور اپنی تہذیب و ثقافت کو پروموٹ کرنا آپ کا فرض ہے”-

پاکستان کے دیگر سرکاری محکموں کا حال بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں… سرکاری استاد سکول’ کالج’ یونیورسٹی میں محض وقت پورا کرنے اور ٹیوشن پڑھانے کے لئے تگڑے سٹوڈنٹس ڈھونگ رہے ہیں’ سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھے ڈاکٹرز مریضوں کو اپنے نجی ہسپتالوں کے فضائل بتا رہے ہیں’ کلرک ہوں یا پٹواری یا کسی بھی سرکاری محکمے کے ملازم… ہر جگہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں-

کہا جاتا ہے کہ:

باپ پر پوت’ پتا پر گھوڑا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا

شاید یہی وجہ ہے اس کیفیت کی جس کا میں آج کل شکار ہوں… جس قوم سے میرا تعلق ہے’ جس معاشرے کا میں حصہ ہوں اس کے اثرات میری شخصیت میں نمایاں ہونے لگے ہیں… لہذا میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میری کمپنی کے باقی "لوگ قربانی دیں” میری کمپنی میں باقی سارے لوگ کام کریں اور بھرپور محنت کریں تاکہ کمپنی منافع میں چلتی رہے’ مجھے تنخواہ و مراعات ملتی رہیں-

میرے دھندلے خیالات تو کم از کم یہی بتاتے ہیں کہ:

قربانی… قوم ہی دے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے