شہد والا کے بعد اب گالی والا

ابھی تو یار لوگ علی امین گنڈاپور کو نہیں بھولے تھے، اب پیش خدمت ہیں خرم نواز گنڈاپور۔علی امین گنڈا پور تو منی سے بھی زیادہ مشہور ہوئے شہد کے لیے مگر یہ شیخ الحدیث ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی مذہبی جماعت کے سیکرٹری جنرل جناب خرم نواز گنڈاپور اپنے لہجہ کی شیرینی اور چاشنی کے لیے مشہور ہو گئے ہیں۔

یہ اسلام آباد کا ریڈ زون ہے ہی ایسا علاقہ کہ کچھ لوگوں کو خاموش کرا دیتا ہے تو کچھ معززین کو ایسا بنا دیتا ہے کہ وہ بولے جاتے ہیں بولے جاتے ہیں رکتے ہی نہیں۔ کیا دلکش منظر تھاخرم نواز گنڈاپور سپریم سے کورٹ سے باہر آئے اور میڈیا کے ڈائس پر میڈیا ٹاک کے لیے جونہی بولنے لگے ، وہاں پہلے سے موجود پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق نے انہیں ہاتھ سے پکڑ کر سائیڈ پر کر دیا اور بولے عمران خان آ رہے ہیں، بس جناب پھر کیا تھا جو گنڈاپوری شہد پی پی کر لہجے میں چاشنی جمع کی تھی خرم نواز گنڈاپور نے ساری وہیں انڈیل دی۔

اپنے شیخ رشید احمد صاحب ان کے منہ سے باہر آتی چاشنی اور شیرینی اپنے ہاتھ پر لگا لگا کر اپنی جیب میں رکھتے رہے، شیخ رشید احمد کی لہجے کی شیرینی سے پہلے بے نظیر بھٹو شہید نشانہ بنتی آئی ہیں اور آج کل ان کے سابق راہبر و راہنما نواز شریف بن رہے ہیں۔ شیخ رشید احمد کافی دیر تک خاموشی سے دونوں لیڈرز کا مکالمہ سنتے رہے مگر جب بات پہنچی گالم گلوچ پر شیخ رشید نے خرم نواز کے منہ پر ہاتھ رکھنا شروع کر دیا، شیخ صاحب نے انہیں بہت سمجھایا کہ بھائی ۔ یہ میرا شعبہ ہے، میری مہارت اسی گفتگو میں ہے اس لیے آپ یہ نہ کریں۔

ظاہر ہے شیخ رشید کو اپنی نوکری کی فکر پڑ گئی ، انہوں نے سوچا ٹی وی چینلز کو اگر کوئی اور تگڑا گالیاں دینے والا مل گیا تو انہیں کون پوچھے گا، اس لیے انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ خرم نواز کو وہاں سے چپ کرو ا کے رخصت کر دیا۔

مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ریڈ زون کی ہوا میں کوئی ایسا خاص اثر ہے کہ یہاں پہنچنے والے شیریں بیان ہو جاتے ہیں، اپنے عمران خان، محترم شیخ الحدیث صاحب۔۔ خواجہ آصف، طلال چوہدری، عابد شیر علی،دانیال عزیز اور دیگر ہمنوا۔۔ ان سب کی گفتگو سے ان کے اپنے چاہنے والے بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی دوسرا ان کے لیڈر کے حوالہ سے بات کرے تو انہیں اخلاقیات نظر آ جاتی ہیں۔

ایک دوست کہنے لگا اگر اسے لہجہ کی شیرینی کہا جائے تو پھر اس کی ریٹنگ میں عمران خان، طاہر القادری، رانا ثنااللہ ، خواجہ آصف، دانیال عزیز، طلال چوہدری کے بعد اب خرم نواز گنڈا پوری تیس درجہ ترقی کرکے ٹاپ فائیو میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

میں تو حیران اس بات پر ہوں کہ نعیم الحق جوگنڈاپوری صاحب کے مقابلے میں انتہائی بے ضرر خواجہ آصف کے بیانات پر فوری ردعمل دیتے تھے ، خرم نواز گنڈاپور صاحب کی میٹھی میٹھی گالیاں سن کر بھی بے مزا نہیں ہوئے اور انتہائی اطمینان کے ساتھ اپنے موبائل فون سے کھیلتے رہے۔

ورنہ تو ادھر خواجہ آصف کا کوئی بیان آیا اور جوابی بیان میں نعیم الحق کہتے خواجہ آصف کو الٹا لٹکا کر اس کو سو جوتے مارے جانے چاہئیں لیکن خرم نواز گنڈا پور کی انتہائی بائیولوجیکل اور عالمانہ گالیاں سن کر بھی وہ ٹویٹ کرتے رہے۔ جیسے گنڈاپور کو جانتے ہی نہیں ، نہ ہی انہیں یہ سمجھ آئی کہ گنڈاپور صاحب نے کون سی زبان استعمال کی ہے، انگریزی زبان کون سا ہماری زبان ہے، ہم تو اردو بولتے ہیں۔۔ اردو سمجھتے ہیں ویسے بھی ہمیں تو گالی بھی صرف پنجابی اچھی لگتی ہے جو منہ بھر کے بولی جاتی ہے۔

ابھی نعیم الحق یہ سوچ ہی رہے تھے کہ خرم نواز نے پنجابی ادب کی بوچھاڑ کر دی، اس پر جب اعتراض کرنے کے لیے نعیم الحق مڑے تو شیخ رشید نے ان کی تھوڑی کو ہاتھ لگایا، پھر پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری نے بھی انہیں سمجھایا ، بھائی یہ کون سی بڑی گالیاں ہیں، اس سے زیادہ تو خان صاحب دے دیتے ہیں ، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔

ان گالیوں سے مجھے یاد آ گیا اہل سنت کے کئی جید علماء بھی جب ڈی چوک میں پہنچے تو سب نے منہ بھر بھر کے گالیاں نکالیں، کبھی حکومت کو تو کبھی میڈیا کو۔۔۔ حالانکہ یہ سب تو گنڈاپوری شہد بھی نہیں استعمال کرتے ۔۔ ہاں یاد آیا اس لہجہ کی چاشنی سے تو معلوم ہوتا ہے حلوہ بھی شیریں بیانی کے لیے مفید ہے۔ حلوہ کھاتے ان پاک باز علماء نے بھی جو مٹھاس بکھیری تھی تو وہ کیمروں کی آنکھ کے بعد سوشل میڈیا پر بھی محفوظ ہو چکی ہے اور اب بھی دنیا ان کلمات خیر سے استفادہ کرتی ہے۔

بہرحال ایک بات ثابت ہو گئی ہے ، جس نے بھی وہ فارمولہ بتایا تھا جس کی لاٹھی اس کی بھینس ، اس نے بالکل درست کہا تھا ابھی تک جو لاٹھی پی ٹی آئی کے ہاتھ میں تھی اب وہ طاہر القادری کے جیالوں کے ہاتھ آ گئی ہے، یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ گالیاں دینے کے لیے کنٹینر پر چڑھنا ضروری نہیں، جہاں بھی کیمرے لگے ہوں وہاں کوئی بھی طاقتور شخص کھڑا ہو کر کمزور کو گالی دے سکتا ہے۔

ویسے خرم نواز گنڈا پور تو کبھی کسی مدرسے میں نہیں پڑھے، وہ کسی سیاسی جماعت کے گلی محلے کے عہدیدار بھی نہیں تھے پھر وہ کون سی طاقت ہے جس کے نشے میں چور ہو کر انہوں نے شعلہ بیانی ۔۔ اوہو معاف کیجئے گا شیریں بیانی کی ۔۔ لیکن ابھی ابھی ایک دوست نے بتایا ہے خرم نواز خان گنڈاپور سابق فوجی افسر تھے اور انہوں نے کیپٹن تک سروس کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔۔ اب سمجھ آئی نعیم الحق کیوں خاموش ہو گئے۔ اب سمجھ آئی وہ کیوں شیخ رشید سے کہہ رہے تھے ایہہ مینوں جاندا نئیں (یہ مجھے جانتا نہیں)۔۔

شیخ رشید نے خاموشی سے سمجھا دیا اور میں بھی سمجھ گیا کیوں نعیم الحق خاموش ہو گئے۔۔ ایسی بات سن کر تو اسلام آباد پولیس کی خرناٹ قسم کی پولیس والی بھی بلی بن گئی تھی۔ جب ایک پی ٹی آئی کارکن سماویہ طاہر نے اس کا گریبان پکڑ کر کہا میں فوجی کی بیٹی ہوں ۔ فوج کی جانب سے تمہیں بتا رہی ہوں تم بھگتو گے۔۔ اور پھر سب نے دیکھا وہ پولیس والے جو سب کارکنوں کو بلاامتیاز اٹھا اٹھا کر ٹرکوں میں پھینک رہے تھے وہ اچانک خاموش اور با ادب کھڑے ہو گئے۔۔ اور ایک ہی بہادر خاتون وہاں گرفتاری سے بچ گئی جس نے بتا دیا تھا وہ کون ہے۔

خرم نواز گنڈا پور بھی خوش قسمت تھے انہوں نے بھی بتا دیا تھا وہ کون ہے۔۔ انہوں نے جو بتایا وہ گالی والے ہیں۔۔ پہلے اس ملک میں مشہور ہوا چائے والا، پھر آیا شہد والا۔۔ اور اب پیش خدمت ہے گنڈاپوری گالی والا۔۔ اس بات پر میں عمران خان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کا طرز سیاست مشہور ہو چکا ہے اور اب مذہبی علما بھی اسی کلچر پر چل پڑے ہیں، مبارک ہو عمران خان صاحب آپ کامیاب ہو گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے