غنوشی ماڈل،غامدی بیانیہ سیاسی اسلام اور تبلیغی جماعت

راشد الغنوشی تیونس کی اسلامی سیاسی جماعت النہضہ کے سربراہ ہیں، ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اواخر میں ایک اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آنے والی النہضہ کی تحریک اب دعوت اور سیاست کو علیحدہ کرنے پر گامزن ہے۔ یہ جماعت تین دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک نظریے کی پیروی کرنے کے بعد اب اسے چھوڑ کرسیاسی اسلام کی بجائے مسلم جمہوریت کا نظریہ پیش کر چکی ہےجس کی مکمل روداد فارن افیئرز کے حالیہ شمارے نے شائع کی ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں اپنے طرز سیاست پر غور کر رہی ہیں اور معاشرےپر بہتر انداز سے اثرانداز ہونے کے لیے جوہری تبدیلیاں بھی لا رہی ہیں، غنوشی صاحب کی دینی سیاست سے لاتعلقی اور اپنی جماعت النھضہ کو صرف اور صرف سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس تبدیلی کے بعد النہضہ اب کسی قسم کی مذہبی یا سماجی سرگرمی میں شریک نہیں ہو گی۔

پاکستان میں اسی قسم کا بیانیہ گذشتہ برس ممتاز مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی پیش کیا تھا جس میں انہوں نے مذہب و ریاست میں علیحدگی کی بات کی تھی،غامدی صاحب کے اس موقف پر مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور بار بار اقبال کا یہ شعر دہرایا گیا کہ
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
میری نظر میں اس سارے ردعمل کا تعلق غامدی صاحب کی اصطلاح کے ساتھ ہے ، جس سے بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ غامدی صاحب ریاست کو لامذہب قرار دینا چاہتے ہیں حالانکہ اس معنی میں ریاست اور مذہب میں علیحدگی کوئی مذہبی سکالر تو کجا ایک عام مسلمان بھی گوارا نہیں کر سکتا،اگر یہاں غامدی صاحب اپنی اصطلاح کو تبدیل کر کے غنوشی صاحب والی اصطلاح کو لے آئیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسے مذہبی حلقہ بھی قبول نہ کرے،بلکہ بعض مذہبی حلقوں میں تو پہلے سے ہی اسی نظریے کو ترویج دینے کی عملی کوشش ہو رہی ہے۔

آئیے اب غنوشی صاحب والی اصطلاح کی طرف آتے ہیں:
راشد الغنوشی نے مذہب و ریاست کی علیحدگی کی بجائے”مسجد و سیاست کی علیحدگی” کی اصطلاح استعمال کی ہے ،وہ لکھتے ہیں :
” ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت مذہب کی ترجمانی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہیے۔ اور مذہبی اداروں کے لیے بھی ضروری ہے کے وہ آزاد اور غیر جانبدار رہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ مسجد لوگوں میں تقسیم کا باعث نہ بنے بلکہ وہ ان کو اکٹھا کرنے کی جگہ ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مسجد کے امام کا غیر سیاسی ہونا بھی ضروری ہے۔امام مسجد کی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے شعبے یعنی مذہبی معاملات کا ماہر ہو،تاکہ اس کی پہچان ایک بہترین مذہبی رہنما کی ہو۔”

جب مسجدمسلمانوں کے تمام طبقات کی اجتماع گاہ ہے تو ضروری ہے کہ امام مسجد یا خطیب کا نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہو اور نہ ہی کسی مسلک سے،بلکہ رنگ و نسل و عصبیت کے بغیر بلاتفریق سب کو دین قیم کی طرف دعوت دینےوالا ہو،طبعی اور شخصی طور پر کسی طرف میلان بدیہی امر ہے لیکن اس کا تعلق اس کی ذات تک محدود ہو اور وہ دوسرے لوگوں پر کسی خاص مسلک یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہونے پر اثرانداز نہ ہو۔

اسی طرح جو ریاستی امور کے نگہبان ہیں وہ اپنے کام کو خوش اسلوبی سے کریں اور ہر شہری کی خدمت پورے دینی جذبے کے ساتھ،کسی سیاسی،نسلی یا گروہی و مذہبی تفریق کے بغیر کریں۔

عملی طور پر ملک کی سب سے بڑی دعوتی تحریک "تبلیغی جماعت” (جس سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے افراد اور پاکستان کی دونوں بڑی دینی سیاسی جماعتیں جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی وابستہ ہیں ) اسی پر عمل پیرا ہے اور تبلیغی جماعت کے اکابر برملا یہ کہتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں،حتی کہ راقم نے ایک مرتبہ تبلیغی جماعت کے بزرگ مولانا احسان صاحب کو ایک بیان میں یہ فرماتے ہوئےخود سنا کہ ” اگر کوئی ایجنسی والے ہیں تو وہ بھی سن لیں کہ ہمارا سیاست و حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے،اگر کبھی ہمیں کوئی حکومت کی پیشکش بھی کرے ہم تب بھی حکومت و سیاست کی طرف نہیں آئیں گے”۔

اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ تبلیغی جماعت نے اپنے لیے تقسیم کار کے طور پر ایک دائرہ عمل طے کرلیا ہے،جس سے قطعا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا تبلیغی جماعت کے بزرگ پاکستان کی سیاست کو بے دین رکھنا چاہتے ہیں یا وہ سیاست کو دین کا حصہ نہیں سمجھتے، جب مذہب سے سیاست کو الگ رکھا جا سکتا ہے حالانکہ سیاست بھی مذہب کے دائرے میں آتی ہے تو پھر سیاست سے مذہب کو الگ کیوں نہیں رکھا جاسکتا؟۔

خود نبی اکرم ﷺ جہاں دینی امور میں رہنماء تھے وہاں آپ ایک بہترین حاکم اور منصف قاضی بھی تھے لیکن آج کا ایک معتبر دینی طبقہ اپنے آپ کو حکومت و قضاء جیسے معاملات سے الگ رکھنا چاہتا ہے، تو جو چیز عملی طور پر قابل قبول ہے اسے نظری طور پر بھی قبول کرنے میں کیا تامل ہے؟

جس طرح مذہب سے سیاست کو الگ رکھنے کی پالیسی ایک اچھی اور ثمر آور کوشش ہے جس کا عوام پر بڑا مثبت اثر پڑ رہا ہے بالکل اسی طرح سیاست سے بھی مذہب کو الگ رکھنا ہماری سیاست اور ہمارے سماج کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے، اگر "مسجد وسیاست میں علیحدگی ” ہی غامدی صاحب کا بیانیہ ہے تو اس میں وہ تنہا نہیں ہیں ،اسلامی دنیا کی غیر سیاسی دعوتی تحریکیں اور عرب دنیا کی بااثر ترین سیاسی جماعت النہضہ بھی اسی بیانیے پر عمل پیرا ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے