پاکستانی برہمن اور شودر

پاکستان میں امیر اور غریب کی دنیا الگ الگ کیوں ہے؟ حلال، حرام، آئینی، غیر آئینی، قانونی، غیر قانونی یہ سب امیر کیلئے الگ اور غریب کیلئے علیحدہ کیوں؟ سیاست، مذھب، تعلیم، صحت، رہائش، طرز زندگی اور اولاد غرض ہر مقام پر زندگی تقسیم نظر آتی ہے، عوام کے کندھوں پر سوار ہونیوالے جلد ہی برگزیدہ اور متبرک قائدین کو روپ دھار لیتے ہیں، آخر سیاست، مذھب اور معاشرت کے نام پر کب تک عوام کا خون چوسا جائیگا، انسان کا آغاز اور انجام تو ایک ہے باقی سب کچھ مختلف اور جدا کیوں؟

پاکستانی کیوں نہ پریشان ہوں، سیاسی، مذھبی، عسکری اور سماجی قائدین امیر سے امیر ترین اور ایک عام شہری غربت اور مسائل کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، کیا اس میں کوئی شک ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نظریاتی ملک ہے، ہم سب ایک خدا، ایک قران اور اسکے رسول محمد مصطفےﷺ کے پیروکار ہیں، وہی کالی کملی والا محسن انسانیت جو مساوات کا سب سے بڑا علمبردار ہے، وہی سرکار دو عالم جو رہتی دنیا تک پسماندہ طبقات کیلئے روشن مثال اور ناداروں کا سب سے بڑا نجات دہندہ ہے، اس کے باوجود کم و بیش تمام مسلم ممالک میں انسانی حقوق اور مساوات کی صورتحال غیر مسلم دنیا کے مقابل باآسانی بدترین کہی جا سکتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ دنیا کے بہترین مذھب کو ماننے والے عملدرامد سے دور کیوں، پوری مسلم دنیا میں امیر اور غریب کے حقوق میں اتنا فرق کیوں ہے؟

امریکہ اور یورپ میں یہ تقسیم کم ترین سطح پر نظر آتی ہے، بعض جگہ تو وزیر اعظم سائیکل پر دفتر آتے ہیں، امریکہ میں صدارتی مدت ختم ہونے پر باراک اوباما کرائے کا مکان ڈھونڈتے اور بطور وکیل دوبارہ کیرئر شروع کرنے میں کی فکر میں ہیں، برطانیہ میں مستعفی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون 10 ڈائوننگ سے اپنا ذاتی سامان ڈھوتے نظر آتے ہیں، یوراگوئے کے صدر ہوزے موخیکا اپنی تنخواہ کا 90 فیصد خیرات کرتے ہیں، کھٹارا گاڑی چلاتے ہیں اور اہلیہ سمیت اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں ابھی شام جنگ میں یتیم ہونیوالے 100 بچوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی لی ہے، دور کیوں جائیں نیپال کے وزیر اعظم سوشیل کوئرالہ جیسی مثال موجود ہے، انکی جماعت ایوان کی 605 میں سے 405 نشستیں رکھتی ہے، 1960 میں آمرانہ مظالم کے بعد خاندان نے بھارت میں جلاوطنی بھی کاٹی، پہلے دوسرے نہیں بلکہ اپنے خاندان کے چوتھے وزیر اعظم ہیں، 75 سالہ سوشیل کوئرالہ غربت کی زندگی کزارتے ہیں، کھٹمنڈو میں عرصے تک رشتہ داروں کے گھروں میں مقیم رہے اور اب وزیر اعظم بننے کے بعد کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہیں

امیر ترین 10 حکمرانوں میں 5 کا تعلق مسلم دنیا سے ہے، روسی صدر پیوٹن اور حال میں وفات پانیوالے تھائی لینڈ کے بادشاہ بھمبول ادلیادیج کے بعد تیسرا نمبر برونی کے بادشاہ حسن البولخیا 20 ارب ڈالرز، متحدہ عرب امارات کے خلیفہ بن زائد النہیان 15 ارب ڈالر، دبئی کے محمد بن راشد المکتوم پانچویں نمبر پر، قطر کے تمیم بن حمادالثانی چھٹے، مراکش کے شاہ محمد آٹھویں، قازقستان کے صدر نور سلطان نذربایوف دسویں نمبر پر ہیں، آگے چلیں تو سعودی عرب، کویت اور اس سے کچھ ہی آگے پاکستان بھی نظر آ جائیگا، شاید غلط نہ ہو کہ پاکستان کا طبقہ اشرافیہ اس دوڑ میں سب سے آگے ہے

شریف برادران ہوں یا آصف زرداری، اسحاق ڈار ہوں یا خورشید شاہ، مولانا فضل الرحمان ہوں یا اسفند یار ولی، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، چوہدری برادران، محمود اچکزئی، رئیسانی اور دیگر سیاستدانوں کی دولت اور طز زندگی کیا انکی آمدنیوں سے کہیں زیادہ بلند نہیں ہے، چلیں یہ بھی مانا کہ سارے سیاستدان منہ میں چاندی کے چمچے لیکر پیدا ہوئے مگر اب تو ہیروں میں کھیل رہے ہیں، خیر یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ کم از کم سیاستدانوں پر الزام لگائے جا سکتے ہیں، مقدمات قائم ہو سکتے ہیں، کیچڑ بھی اچھالی جا سکتی ہے، مگر بعض شعبوں کے بارے میں کچھ نہ دیکھو، کچھ نہ سنو، کچھ نہ کہو کی پالیسی ہے، کیا فوج کے سابق اعلیٰ حکام کی دولت کے بارے میں سوال کیا جا سکتا ہے، کیا یہ جانا جا سکتا ہے کہ شفاف کردار کے حامل پرویز مشرف کے ہر بڑے شہر میں کتنے مکانات اور جائیداد ہے، پھر یہ بھی کہ موصوف طویل عرصے سے برطانیہ، امریکہ اور دبئی جیسے مہنگے شہروں میں کیسے رہائش پذیر ہیں، کیا کبھی یہ جانا جا سکتا ہے کہ ریحانہ کے رسالدار میجر کے بیٹے جنرل ایوب خان کا خاندان کیسے صنعتی ٹائیکون میں تبدیل ہوا، کیا جرات کی جا سکتی ہے کہ فاتح جنرل اخترعبدالرحمان کے خاندان کے پاس ملوں اور جائیداد کا حساب کتاب کیا جا سکے، کیا جنرل جاوید اشرف قاضی ، مرزا اسلم بیگ اور دیگر چنیدہ اعلیٰ عسکری حکام سے کوئی پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے، الامان الحفیظ، ایمانداری کے بات ہے سیاستدانوں کو نشانہ بنانا آسان ہے مگر آگے تو پر جلتے ہیں

چلیں عسکری حکام کو بھی چھوڑیں کیا مساوات کی تبلیغ کرنیوالے مذھبی قائدین سے پوچھا جا سکتا ہے کہ بھیا اتنی گاڑیاں، متعدد شہروں میں بڑے بڑے مکانات، بڑے بڑے مدرسے، یہ پر تعیش طرز زندگی، عوام کو اللہ پر بھروسہ رکھنے کی ہدایت اور خود اتنا پرتقدس اور نورانی پروٹوکول، یہ معجزہ کیسے؟ کہیں کوئی حساب کتاب، کوئی انکم ٹیکس، کوئی دستاویزات، مگر توہین مذہب کے الزام کا خوف طاری ہو تو بھلا کوئی ہوشمند انسان یہ ہمت کر بھی کیسے سکتا ہے، تصویر کا صرف یہ رخ نہیں ساتھ ہی قابل تقلید مثالیں بھی موجود ہیں، سیاسی میدان میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق جیسا فقیر منش رہنما نظر آتا ہے، انسانی خدمت میں عبدالستار ایدھی جیسی عظیم شخصیت کا جلایا ہو چراغ اب چھیپا، عالمگیر، سیلانی اور نجانے کتنے ادارون کی صورت میں روشنی پھیلا رہا ہے، تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عوامی نمائندے خواہ کسی طبقے سے اٹھ کر آئیں جلد اشرافیہ میں بدل جاتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ شاید پاکستان میں سیاست کوئی پارس ہے، اور آگے بڑھیں تو صحافت بھی اس میدان میں پیچھے نہیں، بڑے صحافیوں کی جائیداد، بینک بیلنس اور طرز زندگی انکے بھاری مشاہروں سے زیادہ وزن دار کیوں ہیں، سرکاری افسران ، سماجی کارکنان، تجارت اور دیگر شعبوں میں بھی ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں، گویا سماجی طور پر اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کوئی بھی اصل آمدنی کے مطابق انکم ٹیکس ادا نہیں کرتا

لگے ہاتھوں یہ بھی غور کریں کیا کسی بھی دردمند مذھبی قائد نے کسی ایک شامی بچے کو گود لینے کی بات کی، جہاد کا درس دینے والے جلیل القدر اصحاب میں سے کتنے شہادت کے رتبے پر پہنچے، آگے بڑھیں کیا عوام کا دکھ درد رکھنے والے سماجی کارکنان اور این جی اوز نے عوامی فلاح کیلئے اپنی دولت خرچ کی، عمران خان کے کینسر اسپتال کو چھوڑ کر کیا کسی سیاستدان نے کوئی عظیم فلاحی ادارہ قائم کیا، معاف کیجئے گا پانامہ لیکس، این ایل سی، سرے محل اور لاہور ڈیفنس ہائوسنگ اسکیم اسکینڈل کے ذمہ داران پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا تو پھر کہاں کا انصاف، کیسا احتساب اور کون سی جمہوریت !

تلخ کلامی کیلئے معذرت مگر حقائق اس سے کہیں زیادہ تلخ ہیں، زبانی جمع خرچ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم سے بڑا مذھبی کون ہو سکتا ہے، لیکن عملی طور پر ہم مذھب سے اتنا ہی دور ہیں کہ جتنا مارکس یا اینگلز، ہمارے معاشرے میں ظالموں کا ساتھ دینے والے تو موجود ہیں مگر ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں، انصاف کا درس دینے والے بھی خوب ہیں مگر انصاف ندارد، اسکی بنیادی ذمہ داری میری اور آپ کی بھی ہے جو ظلم سہتے ہیں مگر آواز نہین اٹھاتے، انصاف کیلئے سوال نہیں کرتے، ایک لمجے ہم اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں، اپنی بزدلی اور بےحسی کو تقدیر کا نام دیکر سارا ملبہ حکمرانوں پر ڈالو اور مطمئن ہو جائو، تبدیلی باہر سے نہیں اندر سے لانی ہو گی سوچ میں، معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے کسی حکومت کا نہیں، انفرادی سوچ ہی معاشرتی تبدیلی کی بنیاد ہے اپنی طاقت کو پہچانیں سوال اٹھائیں، ظالم کو پکڑیں اور انصاف کا مطالبہ کریں، ورنہ ہمیشہ شودر ہی بنے رہینگے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے