انصاف پسند کھلاڑیوں کا کپتان

چند دن پہلے جڑواں شہروں میں چلنے والی پاکستان میٹرو سروس پہ انصاف پسندوں کے جلسے میں جا پہنچا، لیکن سیاسی کارکن کے طور پر نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر اپنی معلومات میں اضافے کی نیت سے اور براہ راست مشاہدے کے لئے۔ راستے میں کئی انصاف پسند کھلاڑیوں سے تبادلہ خیال ہوا جو مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ سب اپنے کپتان کی محبت میں جلسے میں جا رہے تھے۔ جب از راہ مذاق ان سے کہا گیا کہ وزیر اعظم صاحب کی بنائی ہوئی میٹرو میں انہی کے خلاف جلسے میں جا رہے ہو تو فورا جواب ملا کہ یہ انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سےہی بنائے ہیں۔ یعنی اپنے کپتان کی باتوں کا اثر ظاہر ہورہا تھا، لیکن سچ پوچھئے تو احساس ہوا کہ یہ جواب تو ظاہر کرتا ہے کہ ان میں سیاسی شعور آرہا ہے، وگرنہ پاکستان میں حکمران ترقیاتی منصوبوں کو اپنے نام سے منسوب کرکے ایسے ظاہر کر رہے ہوتے ہیں جیسے یہ انہوں نے اپنی ذاتی آمدنی سے ثواب کے لئے فی سبیل اللہ بنائے ہوں۔ پھر تقریروں ، تحریروں، باتوں اور بیانات میں بار بار عوام کواحسان جتایا جاتا ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ تم لوگوں کے لئے کئے ہیں۔

اس مقصد کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پہ کروڑوں کے اشتہارات بھی دیے جاتے ہیں جن پہ رعایا کی خون پسینہ بہا کے اور محنت و مشقت سے کی جانے والی کمائی سے ادا کی جانے والی قسم ہا قسم کے ٹیکسز کا پیسہ بھی بغیر کسی حساب کتاب کے اڑایا جاتا ہے۔ عام لوگ تو کیا اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو اس سیاسی شعور وآگہی سے محروم دیکھا گیا ہے، کیونکہ یا تو وہ حالات حاضرہ سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے، یا پھر سوچنے سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ اگر پاکستان کی سیاست کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ کپتان کی پہلی اور سب سے بڑی کامیابی اور ان کا اثر ہے کہ انہوں نے عام لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کا سیاسی شعور بہت بلند کیا ہے۔ بقول ان کے” نوجوان حکومت سے لیپ ٹاپ لیں گے لیکن ووٹ بلے کو ہی دیں گے”۔ وہاں پہ مذاق مذاق میں یہ بات بھی ہوئی کہ نوجوان شریف برادران کی بنائی ہوئی میٹرو پہ ان کے خلاف جلسے میں جائیں گے اور ان کی طرف سے دی ہوئی لیپ ٹاپ کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پہ حکومت کے خلاف پوسٹس اور کمنٹس کریں گے۔ یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے ورنہ یہاں کی تو یہ ریت پرانی ہے کہ جس کا کھاتے ہیں، اسی کے ہی گن گاتے ہیں۔

جن کھلاڑیوں سے تبادلہ خیال کا موقعہ ملا، ان میں یہاں کا رہائشی فہیم نام کا نوجوان فوٹو گرافر بھی شامل تھا۔ فہیم کے انصاف پسند بننےکی وجہ بھی بہت دل چسپ تھی ۔ کئی سال پہلے وہ اور اس کا دوست رات کے وقت مری روڈ پہ بےنظیر ہسپتال کے ساتھ واقع چوک پہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک گاڑی اشارے پہ رکی ہوئی ہے، اشارہ بند تھا اور گاڑی والا اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔ رات کے اس وقت جب ٹریفک کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا، اور اگر چاہے تو باآسانی سگنل توڑ کے نکلا جا سکتا ہے، اس گاڑی والے کی یہ حرکت عام پاکستانیوں کے لئے کچھ عجیب سا معاملہ تھا۔ اس گاڑی میں کوئی عام سا بندہ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان صاحب تھے۔ فہیم یا اس کے دوست نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا تو خان صاحب کے باڈی گارڈ نے جواب دیا اور خان صاحب نے بھی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے ان سے حال احوال پوچھ لیا۔ پھر نوجوان نے ان سے رکنے کی وجہ پوچھی تو کپتان نے ایسا جواب دیا کہ فہیم اس کے اثر سے آج تک خان صاحب کا متوالا بنا ہوا ہے۔ ان کا فرمانا تھا کہ اگر میں بھی یہاں پہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کروں تو کس منہ سے دوسروں کو کہوں گا کہ وہ قانون کی پاسداری کریں۔ کپتان کا اپنے گفتار و کردار دونوں سے سمجھاناواقعی میں ایک لیڈر والی خصوصیت تھی جس سے ہمارے دوسرے بہت سے ہم وطن محروم ہے۔

یاد رہےکہ یہ خان صاحب کے سیاست میں بہت زیادہ مقبول ہونے سے پہلے کی بات ہے کیونکہ راوی نے بتایا کہ یہ واقعہ ان کے لاہور میں مینار پاکستان والے مشہور جلسے سے کچھ عرصہ پہلے کا ہے، جس کے بعد وہ پاکستانی سیاست میں ایک اہم نام بن گئے تھے۔ یہ در اصل خان صاحب کی دوسری بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ قانون کی سر بلندی کی بات کی، وہ قانوں جو سب کے لئے ایک ہو، جہاں پہ امیر اور غریب کی تفریق نہ ہو، اور اسی بنیاد پہ وہ احتساب چاہتے ہیں۔ لیکن انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ احتساب بلا امتیاز اور سب کا ہونا چاہئے، جس میں حکومت، اپوزیشن، بیوروکریٹس اور عام لوگ سب کے سب قانون کے آگے جواب دہ ہوں۔ جس طرح امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کہا کہ تیرا چور میرا چور والی تخصیص نہ ہو، ورنہ اگر احتساب یک طرفہ ہوا تو تحریک انصاف صحیح معنوں میں انصاف نہیں کرسکے گی۔

جلسے میں کھلاڑیوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ سب سے زیادہ متاثر کن منظر وہ تھا جب ایک معذور شخص کو دیکھا جو وہیل چیئر پہ بیٹھے ، پارٹی پرچم اس پہ لگائے اور جھنڈے کے ڈیزائن والی ٹوپی پہنے جلسہ میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ وہ سٹیج سے قریب ترین جگہ تک گیا جہاں تک وہ جا سکتا تھا۔ شاید وہ کپتان کو ممکن حد تک قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے سینے پہ کوئی بیج لگایا ہوا تھا یا نہیں، میں نوٹ نہیں کرسکا، لیکن صاف ظاہر تھا کہ اس کے سینے اور دل میں کپتان بستا ہے۔ اس کے ساتھ والے بندے سے اجازت لے کے اس جذبے سے سرشار کارکن کے ساتھ تصویر بنوائی، کیونکہ میری نظر میں اس وقت جلسہ گاہ میں سب سے بڑی شخصیت وہی تھے۔ایک طرف اقتدار کی کرسی پر براجمان جھنڈے والی گاڑیوں پہ پھرنے والی سرکاری اشرافیہ اور دوسری طرف اپنی معذوروں والی کرسی پہ پارٹی پرچم لگائے یہ سیاسی کارکن جو صحیح معنوں میں ٹائگر کہلانے کا مستحق تھا-کم از کم وہ ان بہت سے لوگوں سے تو بہتر تھا جو حالات پہ تو کڑتے رہتے ہیں لیکن صورت حال میں بہتری کے لئے کسی جدجہد میں حصہ لینے کی بجائے ڈرائنگ روم میں آرام دہ صوفوں پہ بیٹھ کے ٹی وی پہ تماشے دیکھتے اور بڑی بڑی باتیں کرتے رہتے ہیں۔

یہ کپتان کی تیسری بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے قوم کے ہر طبقے کے لوگوں کو سیاسی عمل میں متحرک کیاہے۔ نوجوان اور طلباء تو ان کا ہراول دستہ ہے ہی، ساتھ میں مزدور بھی، معذور بھی، یہاں تک کہ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنےوالے لوگ بھی سیاسی عمل میں شریک ہو رہے ہیں جو کہ پہلے ان چیزوں سے کچھ خاص واسطہ نہیں رکھتے تھے۔ اور خواتین کی بھی عملی سیاست میں شرکت معاصر جماعتوں کے مقابلے میں نمایاں ہے، جو کہ کچھ حلقوں کے مطابق تو خوش آئند ہے جبکہ مذہبی طبقات کو اس پہ اور میوزک پہ تحفظات ہیں۔ لیکن ہمارے علماء کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ پوری حکمت اور اخلاق کے ساتھ اپنا موقف دلائل کی روشنی میں پیش کریں ورنہ محض سیاسی مخالفت میں اگر مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر درمیان میں لایا گیا تو ان کی عزت تو کم ہوگی ہی، ساتھ میں لوگ بھی علماء اور دینی حلقوں سے متنفر ہوتے چلے جائیں گے جس کا نتیجہ نوجوانوں کی دین سے دوری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو یہ اہل علم کی ایک بہت بڑی غلطی اور ناکامی شمار ہوگی، جس پر وہ جوابدہ ہوں گے۔

پچھلے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی پہلی دفعہ کے پی کے میں اقتدار میں آئی۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے ناقدین صوبائی حکومت کی کارکردگی پہ سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ وہ وہاں پہ دودھ اور شہر کی نہریں تو نہ بہا سکیں لیکن انہوں نےاپنے بنیادی نعرہ یعنی نظام کو بدلنے اور سسٹم کی خرابیوں کو دور کرنے پہ توجہ دی ہیں ۔ ان کے کہنے کے مطابق اور میسر معلومات کےحساب سے وہ اس میں ایک حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔ پولیس، پٹواری، کچہری اور تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ کرپشن میں کمی لانے کی بھی ان کی طرف سے اقدامات اٹھائے جانے کی خبریں ہیں، خیبر پختواہ میں ان کے حامیوں سے براہ راست بات کی جائے تو وہ بھی عام طور پر مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ ۔ پوچھے جانے پہ ان کے ووٹرز یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ وہ اگلی دفعہ بھی اسی پارٹی کو ہی ووٹ دیں گے۔لیکن کئی اطلاعات اس حوالے سے منفی بھی آچکی ہیں۔

یہ بات بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ خان صاحب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مکمل اقتدار میں نہیں آسکے اور ان کی طرف سے مرکزی حکومت کی طرف سے عدم تعاون اور رکاوٹ پیدا کرنے کی شکایت بھی ہے۔ باوجود ان حقیقتوں کے صوبائی حکومت بنانا اور ایک حد تک نظام میں تبدیلی اور بہتری لانا ان کی چوتھی بڑی کامیابی ہے۔اگر وہ اور ان کی جماعت مستقبل میں برسر اقتدار آئی اور ملک کے کئی عشروں سے قائم نظام سیاست و حکومت کے جمود کو توڑ کے ان کے وعدے اور وژن کے مظابق نیا ااور عدل و انصاف پر مبنی نظام ا ور فلاحی معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تویہ پانچویں اور سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔ لیکن خدا نخواستہ اگر ایسا نہ ہو سکا تو نہ صرف ان کے بلکہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کے خوبصورت خواب ٹوٹ جائیں گےاور نئی نسل کے لئےنا امیدی اور مایوسی کی نئی شامیں ہوں گی۔ طرز حکمرانی کا جو ایک تسلسل چل رہا ہے، وہی آگے بھی چلے گا اور ” ہیں بہت تلخ بندہ مزدور کے اوقات ” والی صورت حال قائم رہے گی۔ ایسا اس صورت میں بھی ہو سکتا ہے کہ اگر مشہور نشریاتی ادارے بی بی سی کا کسی زمانے میں ان کے بارے میں کیا جانے والا یہ تبصرہ اب بھی صحیح ثابت ہو کہ پاکستانیوں کا ہیرو تو عمران خان ہے لیکن ووٹ انہوں نے کسی اور کو ہی دینا ہوتا ہے۔

پاکستان کی ورلڈکپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے کیپٹن نے 1992میں کھیل کے میدان میں اپنا سب سے بڑا خواب پورا کرنے کے بعداپنی توجہ دوسرا بڑا خواب پورا کرنے یعنی اپنی والدہ شوکت خانم کے نام پہ کینسر ہاسپٹل بنانے پہ لگا دی ۔ اس کی تکمیل کے بعد انہوں نے اپنے تیسرے اور سب سے بڑے خواب کو پورا کرنے کی جدوجہد شروع کی، یعنی پاکستان کے نظام سیاست و حکومت میں تبدیلی لانے کا کٹھن، مشکل اور بظاہر ناممکن لگنے والا کام ۔ لیکن آہنی جذبے اور ساٹھ سال سے بھی اوپر کی عمر میں بھی پچاس ” پش اپس” لگانے والے ، جوانوں کی سی فٹنیس اور صحت ، نوجوانوں سے بھی زیادہ عزم اور حوصلہ رکھنے والے اور روایتی پختونوں کی طرح اپنی بات پہ ڈٹ جانے والے خان صاحب کو یقین ہے کہ انہیں اپنی زندگی کے اس سب سے بڑے خواب کی بھی ایک نہ ایک دن تعبیر ضرور ملے گی۔کئی دفعہ وہ دین کے حوالے دیتے ہوئے اپنی بات کرتےنظر آتے ہیں ، کبھی کرکٹ کے حوالے سے اپنے تجربات کو سیاست میں استعمال کرتے ہوئے اور کبھی مغربی ملکوں اور ان کے نظام سیاست اور حکومتوں کی مثالیں دیتے ہوئے، وہ خود بھی یہاں اور وہاں دونوں خطوں سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اکثر و بیشتر ان کی نجی زندگی کے مختلف پہلووں پہ متنازعہ باتیں کرتے اور ذاتیات پہ حملے کرتے رہتے ہیں، جبکہ وہ خود اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اور ان کو القابات سے نوازنے میں بری طرح بدنام ہیں۔اسلام آباد کے بنی گالہ میں رہنے والے خان نے روالپنڈی کے بنی چوک پہ اپنا پہلا سیاسی جلسہ کرکے اپنی تحریک کا آغاز کیاتھا۔

1996 سے لے کر 2016 تک کی بیس سالوں کے سفر کے بعد پریڈ گرونڈ کا جلسہ پاکستان کی سیاست کا ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کا انحصار سپریم کورٹ کے فائنل فیصلے پر ہے، جس کی طرف پوری قوم کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے دھرنے کے بعد والی جوڈیشنل کونسل کی طرح کا عام سا فیصلہ آتا ہے یا انصاف اور احتساب کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔ آنے والے وقت میں ہی ہمیں ان سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ امید پہ دنیا قائم ہے اس لئے ہمیں بھی اچھی امید رکھنی چاہئے کہ جو بھی فیصلہ آئے گا وہ ان شاءاللہ ملک و قوم کے بہتر مفاد میں ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے