محمد بلال خان کے جواب میں

رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی رح کا یہ فرمان ہے کہ قلم ایک موثر ہتھیار ہے جسے نیک وصالح اور پڑھے لکھے افراد کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے -جب قلم پست وگھٹیا افراد کے ہاتھہ میں چلا جائے تو برائیاں زیادہ ہوجاتی ہیں اور آج بھی مختلف جگہ قلم انہی پست افراد کے ہاتھوں میں ہے – ان پست افراد کا گھٹیاپن جتنا ذیادہ ہوتا ہے تو اسی قدر یہ لوگ اسے اپنے روان قلم کے ساتھہ خوبصورت شکل میں آراستہ کرکے دکھاتے ہیں –

یہ قلم واہل قلم کا وہ جرم ہے کہ جس کا ہماری عوام کو سامنا کرنا پڑھ رہا ہے – وہ لوگ جو تمام برائیاں ,جرائم اور قتل وغارت انجام دے رہے ہیں یہ سب غیر صالح اہل قلم کا حربہ ہیں ایسے افراد اپنے گھروں میں بیٹھہ کر اپنے قلم سے تحریر کرتے ہیں اور بہت ساری چیزوں کو الٹا اور ان کی حقیقت کے برعکس پیش کرتے ہیں ) امام خمینی کا یہ فرمان اپنے اندر بہت وزن رکھتا ہے اور سوچنے والے اہل قلم حضرات کے لئے راہ ہدایت کا چراغ ہے آج اگرغور سے دیکھا جائے تو جگہ جگہ کرائے کے لکھاریوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے, جو یہ سوچے بغیر کہ قلم کی طاقت اللہ کا عطیہ ہے , قلم کی بھی اپنی ایک حرمت ہوتی ہے, اس امانت الہی میں خیانت کرنے کی سزا سنگین ہے معمولی رقم کے مقابلے میں باطل کو حق اور حق کو باطل کا لباس بڑے خوبصورت الفاظ میں پہناکر عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں, اور اس کے ذریعے ان کا ہدف لوگوں کی گمراہی, عوام فریبی اور نسل نو کو حقائق سے دور رکھنا ہے-

کچھ افراد اس میدان میں اس قدر جرات کرتے ہیں, کہ شروع سے آخر تک غیر حقیقت پر مبنی باتیں لکھ کر اپنی عمر ضائع کرنے کے علاوہ قاری کی عمر تلفی کا گناہ بھی اپنی گردن پر لینے میں ڈر محسوس نہیں کرتے – ایسی ہی ایک غیر حقیقت پر مبنی تحریر ایک دن پہلے آئی بی سی اردو پر شائع ہوئی تھی جس کے شروع سے آخر تک کا بغور مطالعہ کیا لکھنے والے کا نام ہے محمد بلال خان ۔ اس میں لکھاری نے صرف اپنے دل میں موجود تعصب وعناد کی بھڑاس نکال کر خود کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے اور پڑھنے والوں کو اپنے جہل مرکب کا اعلان کردیا ہے انہوں نے اپنی تحریر کے آغاز میں لکھا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے فیصلے کن مراحل میں داخل ہوچکی ہے)جب کہ زمینی حقائق سے باخبر لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وطن عزیز میں دہشتگردی کے خلاف جنگ نہ صرف فیصلے کن مراحل میں داخل نہیں ہوئی ہے بلکہ دہشتگردی کے خلاف موثر کارروائی شروع ہی نہیں ہوئی ہے جس کا واضح ثبوت آئے روز ملک کے مختلف مقامات پر دہشتگردوں کی طرف سے ہونے والے حملے اور دھماکے ہیں, پاکستان میں قتل وغارت کے بغیرکسی دن کا نہیں گزرنا ہے, دہشتگردوں کی کاروائیوں میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوجانا ہے –

اس کے بعد انہوں نے لکھا ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور امن وامان کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اپنے اپنے وقت پر قانون کے شکنجے میں آرہے ہیں ) اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں اگر امن وامان کی راہ میں کانٹے بننے والے اپنے اپنے وقت پر قانون کے شکنجے میں آچکے ہوتے تو پاکستان میں روز بروز امن وامان کی صورتحال بہتر ہونی چاہئے تھی نہ بدتر پاکستان میں آئے روز دہشتگردی کا بڑھتا ہوا رجحان اور دہشتگردوں کا دندناتے پھرنا,فوج کے خلاف بکواسات کرنے والا ملا عبدالعزیز آزاد رہنا, لدہیانوی جیسے خطرناک دہشتگردوں سے وزیر داخلہ ہنسی وخوشی سے ملنا اور سرکاری میز پر بٹھاکر مذاکرات کرنا , اختر مینگل اورنگزیب فاروقی جیسے انسانیت دشمن ناسوروں کو سرکار کی طرف سےفل سکورٹی ملنا اس بات پر بین ثبوت ہے کہ دہشتگرد کسی قانون کے شکنجے میں نہیں آئے اور نہ ہی آئیں گے چونکہ پاکستان کا قانون دہشتگردوں کے لئے نہیں غریبوں اور حق گو افراد کے لئے بنا ہے

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ظالم حکمرانوں کے اشارے سے ان کے ماتحت کام کرنے والے حق گو افراد کو چن چن کر گرفتار کررہے ہیں رضا عابدی پر بے جا الزام لگا کر گرفتار کرلیا بزرگ عالم دین میرزا یوسف سمیت بے شمار افراد کو حق اور حقیقت پر مبنی باتیں کرنے کے جرم میں گرفتارکیاگیا لیکن اصل دہشتگرد ایک بھی قانونی شکنجے میں نہیں آیا آج تک کوئی گرفتار نہیں ہوا بلکہ حکومتی سطح پر باقاعدہ ان کی پشت پناہی ہوتی ہے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ان کو اس ملک پر مسلط کیا ہوا ہے – ادامہ تحریر میں انہوں نے دہشتگردی کے سب سے بڑے محرک کے طور پر پاکستان کے ازلی دشمن کے ساتھہ پاکستان کے پڑوس ودوست ملک (اتحاد کے علمبردار) ایران کو قرار دیا ہے جو نہ صرف غیر حقیقت پر مبنی بات ہے بلکہ یہ سراسر ظلم وناانصافی ہے, نیز پاکستان اور ایران کے درمیان پائے جانے والی دوستی اور محبت پر کاری ضرب لگائی ہے, جو کسی بھی صورت میں نیک شگون نہیں-

پھر لکھا ہے کہ خمینی انقلاب کے بعد ایران نے پاکستان میں منظم سازش کا آغاز کیا ہے یہاں پر لکھاری خطائے مصداقی کا شکار ہوا ہے پاکستان میں انقلاب ایران کے بعد ایران نے نہیں جناب سعودی عرب نے منظم سازش کا آغاز کیا ہے جو آج طالبان , القاعدہ اور داعش کی صورت میں تناور درخت کی شکل اختیار کرچکی ہے -سعودی فرمانروا ایران میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوتے ہی چوکنا ہوگئے اور اسی وقت سے ہی ایران میں انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر صدام کو ایران پر حملے کے لئے اکسایا, جس میں انہیں رسوا کننده ناکامی ہوئی تو سعودی عرب نے پوری دنیا میں ایران کے خلاف سیاسی اور مذہبی پروپیگنڈاکرکے ایران کے بارے میں نفرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی, اس کے باوجود لبنان میں شیعہ سنی مسلمانوں بالخصوص حزب اللہ پر ایرانی اثر ورسوخ روز بروز بڑھتا گیا جس نے اسرائیل اور مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے حکمرانوں کو بوکھلاہٹ میں ڈال دیا –

شام اور لیبیا کے علاوہ سعودی عرب سمیت تمام عرب حکومتیں ایران کے بارے میں پریشانی کا شکار رہیں امریکہ اور مغرب نے ان حکومتوں کو ایران سے مزید ہراساں کرکے ان کی بوکھلاہٹ میں اضافہ کردیا, یہ بے چینی اس وقت اپنے عروج کو جاپہنچی جب فلسطین میں ایران کی حمایت یافتہ جماعت حماس نے دیگر فلسطینی گروپوں اور عربی حکومتوں سے اپنا رابطہ جدا کرکے اسرائیل کے خلاف مقاومت اور مبارزہ کو راہ نجات کے طور پر اپنایا اور فلسطین میں انتخابات جیت کر اپنی مقبولیت کا لوہا منوالیا- لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کی کامیابیوں نے امریکہ اسرائیل مغربی ممالک اور عربی حکومتوں بالخصوص آل سعود کی نیندیں حرام کردیں اسی وقت سے ایران پر ہر طرف سے دباو بڑھنے لگا- حزب اللہ اور حماس کی حمایت کی بنا پر ایران کو دہشتگرد شمار کرنے لگا-

ایران پر پابندیاں لگادی گئیں- میڈیا پر خوفناک پروپیگنڈا شروع ہوا- ایران کے ایٹمی منصوبے کو متنازع بنایا گیا- بلکہ ایران پر مل کر مسلحانہ حملے کی فضا بنانے لگے -اس تمام کاروائی میں سعودی عرب پیش پیش تھا شیطان بزرگ امریکہ نے سعودی عرب کی اصلی کمزوری کو بھانپ کر ہمیشہ اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہے کمزور سعودی عرب حکمرانوں نے بھی مغربی اور امریکی غلامی من وعن قبول کرکے مسلمانوں کے ساتھ اپنی غداری کا ثبوت پیش کردیا- امریکہ کے معروف دانشور و مصنف نئوم چومسکی نے کہا ہے کہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کا اصلی مرکز سعودی عرب ہے جس کا نظریہ وہی ہے جو داعش القائده وطالبان کا نظریہ ہے- ہیلری نے ایک بار سعودی عرب کی جانب سے شدت پسندوں کی امداد پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "سعودی عرب نے پوری دنیا میں انتہاپسند مدارس اور مساجد کی بنیاد رکھی جس سے بہت سارے نوجوان لوگ شدت پسندی کی جانب مائل ہوئے "۔جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو دنیا میں دہشت گردی کا بانی قرار دیا ہے۔ امریکہ کی ایک سفارتکارفرح Pandithجس نے کئی مسلم معاشروں کو قریب سے دیکھا ہے اور اس نے قریباً 80 ممالک کا سفر کیااس نے لکھا ہےکہ مسلمانوں کے اندربرداشت کی جو روایت تھی اسے سعودی عرب کے اثرات نے پارہ پارہ کر دیا ہے اور اگر سعودی عرب نے اپنے اس عمل کو نہ روکا تو اس کے شدید سفارتی، ثقافتی اور معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بات اب زبان زدِ خاص و عام ہے کہ سعودی عرب نے ایک سخت گیر،متعصب، گروہی، بنیاد پرستانہ اسلام کو ابھارا ہے۔

وہابی ازم کی چھتری تلے اس نے دنیا میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جس سے دہشت گردی کا آغاز ہوا۔دولت اسلامیہ جس نے مغرب میں تشدد کی لہر پیدا کی اور جو ملک در ملک دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے ہے اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھی سعودی عرب کی تعلیمات کا شاخسانہ ہے جو ایک نئے انداز کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب جس اسلام کی تبلیغ کرتا ہے اسے وہابی ازم کہا جاتا ہے۔ یہ سعودی عرب ہی ہے جس کی مطلق العنانیت کو مغربی ممالک نے اسلام پسندوں کے مقابلے سپورٹ کیا ہےجس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے مسائل نے جنم لیا ہے ۔ ان ممالک میں امریکہ بھی شامل ہے۔ یہ سب کچھ سعودی ریاست کے اثرات ہیں۔ بروکنگزانسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سکالر میک کانٹس نے کہا ہے کہ "انتہا پسند اسلام کے دائرے میں سعودی باشندے لڑتے بھی ہیں اور لڑاتے بھی ہیں "۔انہوں نے اسلام کا ایک مہلک چہرہ سامنے لایا ہے جس نے مسلمان اور غیر مسلمان کے مابین ایک خط کھینچ دیا ہے وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان بھی نہیں سمجھتے۔ انہوں نے جہادیوں کو نظریاتی چھتری فراہم کی ہے۔

ناروے سے تعلق رکھنے والے ماہر امور دہشت گردیتھامس ہیگمرThomas Hegghammerجو امریکی حکومت کے ساتھ بھی مشاورت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ "سعودی عرب نے جن مذہبی اہداف کی جانب سفر شروع کیا ہے اس کا سب سے زیادہ اثراسلام کے ارتقا پر ہوا ہے جو سست ہو گیا ہے کیونکہ اس نے دنیا کے تقاضوں کے مطابق خود کو تبدیل نہیں کیا "۔انہوں نے کہا کہ "اسلام میں بیسویں صدی میں جو نئی روح پھونکی گئی اس کا راستہ بھی سعودی عرب نے روک دیا "اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی خطیر رقم درجنوں ممالک میں وہابی اور تکفیری خشک وغلط عقیدے کی ترویج واشاعت میں خرچ کی ہے جس سے مقامی اسلامی روایات کو سخت دھچکا لگا ہے۔

جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو سعودی عرب میں کئی سال محنت مزدوری کرتے رہے جب وہ اپنے ممالک میں واپس گئے تو انہوں نے سعودی عرب کے طور طریقے اپنے معاشروں میں لاگو کرنے کی کوشش کی جس سے وہابیت کو فروغ ملا۔ بالخصوص مصر،پاکستان اور دوسرے ممالک میں جہاں لوگ سخت گیر ہو گئے اور جس نے اسلام سے بغاوت کرنے کی کوشش کی اسے مار دیا- یورپ کے وہ ممالک جہاں مسلمان مہاجرین آباد ہوئے ان میں شدت پسندی کی وجہ سعودی اثر و رسوخ ہی ہے۔ جبکہ پاکستان اور نائیجیریا میں جہاں مذہبی تقسیم زیادہ ہے وہاں سعودی پیسے اور اس کے پھیلائے ہوئے نظریات کی وجہ سے مذہب کی بنیاد پر خون آشام واقعات ہوئے ہیں۔

ڈیوڈ اینڈریو وینبرگ جو کہ واشنگٹن کے ادارے Foundation for Defense of Democraciesمیں کام کرتے ہیں اور سعودی عرب پر گہری نظر رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ "مسلم اور غیرمسلم کی بنیاد پر تقسیم اس قدر وسیع کر دی گئی کہ وہ لوگ جو باقاعدہ کسی گروپ کا حصہ نہیں ہیں وہ بھی غیر مسلموں کوانسان ہی نہیں سمجھتے اور یہ سب کچھ خدا کے نام پر کیا جا رہا ہے –

جاری ہے ۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے