ٹرمپ کاانتخاب،صلیبی جنگوں کے آخری راؤنڈکی تیاری

امریکامیں صدارتی انتخابات کامرحلہ مکمل ہوچکاہے اور ”خلاف توقع”ایک سینئرسیاست دان کوہراکرایک سرمایہ کاربرسراقتدار آچکاہے۔ امریکی الیکشن میں دل چسپی لینے والے اہل وطن کی اکثریت ٹرمپ کی جیت کوملکی سلامتی کے لیے نیک شگون قرارنہیں دیتی،ان کاخیال ہے کہ اگر ہیلری کلنٹن کام یاب ہوجاتیں توپاکستان کے حق میں بہتر ہوتا۔ان کا تاثریہ ہے کہ براہواجوٹرمپ کام یاب ہوگیا۔حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکاجس ٹریک پر چل چکاہے،اب وہاں کوئی بھی حکم ران آئے ،وہ اس سے نہیں ہٹ سکتا،امریکا کے پالیسی ساز کئی کئی برسوں کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔

یہ بھی ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ ان پالیسی ساز وںکے رگ وریشے میں پاکستان اور اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،جس کے مطابق وہ پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔نائن الیون کے بعد بش،کلنٹن،اوباما،تمام صدوراسی پالیسی کے مطابق زمین ہموار کرنے کے لیے برسراقتدار لائے گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کواقتدار تفویض کیا جانابھی اسی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔اگروہ یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کوامریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا،پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا،بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا،تواوبامانے کیا یہ سب کچھ نہیں کیا تھا؟کیا ان سب اقدامات میں ہیلری اس کے ساتھ برابر کی شریک نہیں تھی؟اب ان لوگوں کی خوش فہمی بھی دور ہوجانی چاہیے جوامریکی عوام کولین چٹ دیاکرتے تھے کہ امریکی عوام کھلے دل والے لوگ ہیں۔ٹرمپ کے انتخاب سے اندازہ ہوگیاکہ وہ مسلمانوں کے لیے کیاعزائم رکھتے ہیں، ان کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر عیاں کر دیاہے۔

ٹرمپ کوجس منظرنامے میں اقتدار مل رہاہے ،وہ یہ ہے کہ امریکا مسلم دشمنی کے ایجنڈے پر عمل پیراہے اور اس نے مقامی مخالفین ،چاہے وہ حکم ران ہوں یااپوزیشن،کوساتھ ملاکرمسلم ممالک میں تباہی و بربادی ،قتل عام اور مسلم کشی کابازار گرم کر رکھاہے۔دوسری طرف پاکستان کودہشت گردی کی جنگ میں سب سے بڑااتحادی اور فرنٹ مین قراردینے کے باوجود امریکا نے ہمیشہ دھوکا دیا، ے افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکائو بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلیئر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اسے نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے مہم چلا ئی ۔ملک کواندرونی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی ،ڈرون حملے میں گھروں کے گھر اجاڑدیے،ڈالروں کی چکاچوند اور ”ایڈ”کے موہوم سراب دکھا کرہمارے حکم رانوں کواپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کیا۔

پہلے پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا،پھر مذہبی انتہاپسندی ،لسانی تعصب اور حقوق کی عدم فراہمی کے کارڈز استعمال کرکے ہمارے ہی بھائیوں کوہمارے خلاف کھڑاکیا،پھر ان ہی کے خلاف ہمیں لڑنے کا حکم دیا،یوں وزیرستان ہویابلوچستان،جنوبی پنجاب ہویاسندھ ،مقتل کا منظر پیش کرتے رہے،جس میں قاتل بھی ہم اور مقتول بھی ہم ہی تھے۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کی دوراندیشی سے اب صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے،ورنہ اپنے مفادات کے اسیر سیاست دانوں نے تو عملی طور پر ملک کوامریکی باج گزاری میں دے ہی ڈالاتھا۔

ہمیں ان کے غم میں نہیں گھلناچاہیے۔”بیگانی شادی ”میں ہی” دیوانے ”ہوتے رہے توخاکم بدہن ہماراحال اور بھی ابتر ہوجائے گا۔ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کودرست خطوط پر استوارکرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ڈونلڈٹرمپ کا پاکستان اور اسلام کے خلاف لب ولہجہ بتاتاہے کہ اب امریکاصلیبی جنگوں کاآخری راؤنڈکھیلنے جارہاہے ۔امریکاایک حقیقت ہے،اس کی طاقت اور عالمی منظر نامے پر اس کے اثرورسوخ کوجھٹلاناخود فریبی کے مترادف ہے،لیکن خارجہ پالیسی کی تطہیر ضروری ہے۔ہمیںدنیا کی انصاف پسند رائے عامہ کوساتھ ملا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانی ہوگی،اس کے لیے ضروری ورک ناگزیرہے۔پاکستان نے جب کبھی بھی ایساکوئی اسٹینڈ لیا،اس کے دل خواہ نتائج سامنے آئے۔زیادہ پرانی بات نہیں جب وطن عزیز کی طرف سے نیٹو کی سپلائی بند کی گئی تھی تو امریکی اوراتحادی منت سماجت پر اترآئے تھے کہ رسد نہ ہونے کے باعث افغانستان میں پھنسی امریکی فوج کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔

شومیِ قسمت، ہم ہی اپنی بات پرنہ جم سکے ورنہ عالمی تجزیہ کاروں نے کہہ دیاتھاکہ یہ رسد اگرچند دن نہ کھلتی تو امریکیوں کو دن میں تارے نظر آنے تھے ۔پاکستان اسی طرح ہرمعاملے میں استقامت کے ساتھ امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹ جاتا،توکوئی بعید نہیں تھاکہ امریکا ہمیں اپنی کالونی بنانے کے خبط سے نکل کربرابری کی سطح پرہم سے ڈائیلاگ کرتا۔ہماری خارجہ پالیسی آقا اور غلام کے بجائے اتحادی ہونے کی بنیاد پر استوار ہونی چاہیے،تاکہ ہم اس سے کچھ اپنی بھی منواسکیں،ہم اس سے شکوہ بھی کرسکیں اور اس کے غلط کو غلط بھی کہہ سکیں،جس طرح ایران کا امریکا کے ساتھ معاملہ ہے۔کاش! ہمارے حکم ران ایران سے ہی ملی وملکی غیرت وحمیت مستعارلے لیں،آخر قومی ضمیر کا یہ سوداکب تک ہوتارہے گا؟

یک طرفہ ٹریفک کا سلسلہ اب روکنا ہوگا،ورنہ ملک مزید انتشار کی طرف بڑھتانظر آرہاہے۔غیروں کوآلہ کارہماری درمیان سے کیوں مل رہے ہیں؟اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔محرومیوں کا ازالہ اور حقوق کی فراہمی کسی بھی ملک دشمن کے عزائم ناکام بنانے کاکارگرطریقہ ہے،ہمارے مسائل کی بہت بڑی وجہ امریکی مداخلت بھی ہے،جس کاتوڑبھی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تمام ہم وطنوں کو ان کے جائز حقوق دیں،ان کی محرومیوں کاازالہ کریں،بے لاگ عدل اور ن رحم انصاف کی فراہمی کو اپناشعار بنائیں۔

یہاں ہم ایک دوسری بات کی طرف بھی توجہ مبذو ل کرناچاہتے ہیں ،کہ گورنر سندھ کی برطرفی کی ایک اہم وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ وہ ایم کیوایم کوپرویز مشرف کوتھالی میں رکھ کر پیش کرناچاہتے تھے،یہ بھی کہاجارہاہے کہ وہ دبئی بھی اسی مقصدسے گئے ہیں۔اگر ایساہواتومستقبل میں کہیں ایک بار پھر یہ بزدل کمانڈو،جوایک فون کال پر ڈھیر ہوگیاتھا،ہماری ملکی تقدیر کا مالک نہ بن جائے۔پالیسی ساز ادارے یقیناًباخبر ہیں اور ان سے یہی اپیل اور توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس” طالع آزما”کا راستاروکیں گے،جس نے امریکی ایماپر ڈرون اور خودکش حملوں کی دلدل میں وطن عزیز کو دھکیلا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے