کیا خواجہ سرا انسان نہیں؟

مملکت پاکستا ن کے باسیوں کے بھی عجیب رنگ ہیں کہ ڈرامہ بازاور فنکار سپر مین کہلاتے ہیں!رکشے والے اپنی ظاہری خدو خال کی بدولت رات و رات آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں!چائے والے کو چائے نہیں بلکہ اسکے چہرے کی کشش کے باعث آفاق کی بلندیاں نصیب میں آتی ہیں!شربت خان کو اس کی گہری سبز آنکھوں کی بدولت انجلینا جول ثانی کہا جاتا ہے!ڈھول والے کو اتنی عزت ملتی ہے کہ اسے کروڑ پتی بنا دیاجاتا ہے اورمچھلی والے کو بھی اتنا سر پر چڑھایا کہ اسے دولت سے مالا مال کر دیا!لیکن اس وقت نہ ز مین پھٹی نہ آسمان ،نہ کوئی محمد بن قاسم آیا نہ کوئی اور مسلمان،نہ کسی کو پسینہ آیا اور نہ کسی کو غصہ،ججا بٹ کا ہاتھ ٹوٹا نہ ویڈیودیکھنے والوں کو خوف آیا ،صحیح معنوں میں نہ حکومتی مشینری حرکت میں آئی نہ کوئی جماعت سراپا احتجاج ہوئی۔ بس ہر کسی نے اس واقعے کو معمول کے واقعے کی طرح سنا اورذہن کے دریچے میں لے جانے کے بجائے’’ سپر مون‘‘ کے ساتھ سیلفی لینے کے چکر میں پھنس کر رہ گیا۔

سیالکوٹ کے مرکزی ملزم’’ ججا بٹ ‘‘نے ایک خواجہ سرا کو چارپائی پر الٹا لٹا کر اسے چمڑے کی بیلٹ سے مارتے ہوئے ویڈیو بنوائی ہے۔ ویڈیو میں ایک خواجہ سرا کونیم برہنہ حالت میں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا یا ہے اور سوشل میڈیا پر اسے لاکھوں کی تعداد میں شیئر کیا گیا ہے۔ملزم غلیظ گالم گلوچ کرتے ہوئے اپنے گینگ کیساتھ ملکرخاتون خواجہ سرا کو چارپائی پر الٹا لٹا کر اس کی گردن پر پاؤں رکھ لیتا ہے اور اس کے بعد لیدر کی بیلٹ سے اسے مارنا شروع کر دیتا ہے۔لکھتے ہوئے قلم کی جنبش اور ہاتھ کی کپکپاہٹ کیساتھ میں یہ کالم ضبط تحریر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ خواجہ سرا نے کہا کہ ’’پھر ججا بٹ نے ہمیں اپنا پیشاب پلایا‘‘اور لعن طعن کرتے رہے اور ساری رات اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے‘‘۔

خدا کا قہر نہیں ٹوٹا، خدا کا غضب نہیں برپا ہوا اور فرشتوں نے آکر ان ناپاک عزائم اور ججابٹ کے ناپاک ارادوں کو ملیامیٹ نہیں کیا؟ شاید اس لیے کہ ہمارے گناہ اتنے زیادہ ہیں کہ اب دل ہی سیا ہ پڑھ چکا ہے ۔ بقول شاعر : وضع میں تم نصاریٰ،تو تمد ن میں ہنود۔۔۔!یہ مسلماں ہے !جسے دیکھ کے شرمائیں یہود

اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ دوسرے کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرو۔ اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ اگر کسی جنگل بیاباں میںیا کسی سمندر کے کنارے بھی اگر کوئی جانور بھوکا یا پیاسا پایا گیا تو کل قیامت والے دن پوچھ حاکم وقت سے ہوگی۔نبی آخر الزمان کے فرمان عالی شان کے مطابق ہمیں تو جانوروں کیساتھ بھی رحم کرنے کا کہا گیا ہے ۔ اسلام کا حسن یہ ہے کہ جب اسلام کی روشنی پھیلنے لگی تو سنگ دلی مٹنے لگی ۔

عرب میں ایک رواج عام تھا کہ وہ جانوروں کو ایک جگہ پر باندھ کر اس کا نشانہ لگاتے تھے ، حضورﷺ نے اس قسم کے گوشت کو ناجائز قرار دیا۔ آج انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے اور ہماری موم بتی مافیا بھی خاموش ہے۔ جدت و جدیدیت کا نعرہ لگانے والے ، خود کو عقل کل سمجھ کر سیکولراور لبرل کہنے والے بھی آج سیالکوٹ کے وحشی کے وحشیانہ پن پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔وہاں کے منتخب شدہ ممبران بھی کچھ نہ کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ اور تو اور خو کو دین کے معاملے میں مطلق العنان اور علم و عمل کا محور اور دانش و ذیست میں ارسطو، بطوطہ او ر حافظ ابن حجر العسقلانی سمجھنے والوں کو بھی آج سانپ سونگھ گیا ہے۔آج ہرانسان ’’دفاعی پوزیشن کے حصول ‘‘ میں مگن ہے مگر انسانیت آج زمین کی کوسوں گہرائیوں میں دھنس کر اپنا منہ چھپائے کسی مسیحا کی تلاش میں ہے جو آکر اس ظلم و زیاتی کی آگ کو ٹھنڈا کرے۔

معصوم اور بیچارے ہیجڑوں کی اس درد بھر ی سٹوری کو پوری دنیا نے دیکھا ۔پشاور میں انکے ساتھے ظلم و تشد د اور بربریت کے خلاف کچھ نہ ہو سکا ۔ پشاور میں ہیجڑوں پر زمین تنگ ہو گئی ہے جو ہیجڑا کہیں نظر آتا ہے اسے موت کے گھاٹ اترنا ہی ہوتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ ’’ہیجڑے انسان ہیں یا نہیں؟بات یہ بھی نہیں کہ ہیجڑے معاشرے کا وہ معصوم طبقہ ہیں جن کے لیے آج تک کسی حکومت نے’’ کچھ نہیں ‘‘کیا۔

مسئلہ یہ بھی نہیں کہ ہیجڑوں کی تعلیم ، صحت ، صاف پانی اور انہیں بنیادی ضروریات حاصل ہوں!حاصل یہ بھی نہیں کہ انہیں پاکستان کا شہری قرار دیکر ووٹ کا حق دیا جائے!بیان الکلام یہ ہے کہ کیا(معاذاللہ) ہمارے پیارے بنی ﷺ نے کبھی ایسا کہا کہ کسی ذی روح سے ظلم روا رکھنا جائز ہے؟ کیا کسی ذی روح کے حقوق کی حق تلفی کرنا اور اسے معاشرے میں ذلیل کرنا روا ہے؟کیا عرب و عجم کے والی نے کبھی کسی اقلیت ، کسی مختلف الجنس یا متضاد الجنس کے ساتھ زیادتی کی اجاذت دی؟ اگر ایسا نہیں ہے توکیوں نہیں اللہ رب العزت کی مخلوق ’’ہیجڑوں ‘‘ کوانکے حقوق دیے جاتے؟ کیوں انکے ساتھ ہر جگہ ظلم ، ناانصافی اور بد تہذیبی کو جائز سمجھا جاتا ہے؟ کیا خواجہ سراانسان نہیں ہیں؟۔

مجھے احساس ہے کہ اس مخلوق کے حق میں جسے ہم ’’تیسری مخلوق‘‘ کہتے ہیں ، لکھنے سے کچھ نہیں ہو گا اور نہ حکمرانوں کے کانوں پر جوں رینگے گی ، کیونکہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ اکثریت میں رہنے والوں کے اتنے مسائل ہیں وہاں ’’ہیجڑوں‘‘ یا ’’تیسری مخلوق‘‘ کا تذکرہ کرنا لاحاصل ہے! لیکن اگر ہم بنظر غائر اپنے آس پاس کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ ججابٹ،شاہ رخ جتوئی اورگلوبٹ ٹائپ کے لوگ ہی تالاب کی وہ گندی مچھلیاں ہیں جو سارے تالاب کے ماحول کو آلودہ کرتی ہیں اور کبھی کبھی وہ ایسا انسانیت سوز سلوک کرتی ہیں کہ خدا کا عرش بھی ہل جاتا ہوگا۔

یاد رکھیے یہی سب وہ لوگ ہیں جو ایک مائینڈ سیٹ کہلاتے ہیں جو بس ہمیشہ اپنی چاہت اور خواہش کے سامنے ہتھار ڈال کسی کا بھی خون کرتے ہیں اور معاشرے کی بنیادی اکائیوں اخلاق، پیار محبت،امن شانتی، عزت واحترام اور حق سچ کا گلا گھونٹے ہیں۔اب ہماری ’’چوائس‘‘ ہے کہ ہمیں ظلم و جبر کے اس مکروہ چہرے کو دنیا میں بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچانا ہے یا خود کو کل خدا کے سامنے شرمند ہ دیکھنا ہے!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے