تحریر کیسے سیکهیں…؟

تحریر کیا ہے؟ فکر و خیال میں ابهرتی شعاعوں کو گرفتار کر کے قلم و کاغذ کے حوالے کر دینا. تحریر،من میں پھیلے احساس کی ماہرانہ تراش ہے.خیال و احساس کو تراشنے کا یہ عمل مگر ریاض چاہتا ہے.ستهرا احساس، نتهری فکر اور سلجها خیال اس ریاض کا حاصل ہے. اس حاصل کے دستے کو زبان و بیاں کی لطافتوں کے جلو میں برآمد کرسکنے والا، قلم کاری کے منصب کا سزاوار ہوپاتا ہے.

لفظوں کی مینا کاری اس روح سے عاری ہو تو، کسی بے روح پڑے حسین وجود کے سوا کچھ نہیں. ناگزیر ہے کہ لفظوں کی کائنات جہان معانی سے بے نیاز نہ رہے. سو جب احباب یہ پوچهتے ہیں کہ تحریر کیسے سیکهی جائے، تو انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ چیزوں کو محسوس کر سکنے والے احساسات بڑها ڈالو، فکر و خیال سے اتنے نتائج نچوڑ لیجیے کہ فطری رفتار سے اظہار کی حد چهو پائیں. معانی کی افزائش اور اظہار کے درمیاں کا فطری فاصلہ مختصر کرنے پر صبرمسلسل کو ترجیح دیجیے. یعنی بولنے کے لیے خامشی اور لکهنے کے لیے نہ لکھنا سیکهیے. یہ سب ہو چکنے تلک من میں معانی کی اک کائنات تخلیق ہو چکی ہو گی. پهر اس کائنات معانی سے حسب ضرورت معانی کا ظہور اس ادا سے ہو گا کہ خود کے لیے موزوں الفاظ کا پیرہن آپ تخیلق کرگزرے گا.تحریر سیکهنے کا عمل لفظوں کے جوڑ توڑ یا جملوں کے دروبست سے زیادہ معانی کی افزائش سے متعلق ہے.سو مجھ بے نوا سے تحریر کے ہنر کو سیکهنے میں مشورہ چاہنے والے متنبہ ہوں کہ اس فن میں ڈهنگ سے چل سکنے کی راہ، معانی سے الفاظ کی طرف چل چل کر بڑھتے رہنے کی راہ ہے. اس راہ میں الفاظ کی راہوں سے معانی کی طرف بڑهنے کی کاوش، بے کار کی سعی کے سوا کچھ نہیں.

سو تم بهی یوں ان راہوں پہ چل سکو تو چلو.
احساس آمیز خبر ہے کہ میں احباب کی فرمائش کی لاج میں اس موضوع پر کچھ زیادہ نہ لکھ پایا. پرجو وہ اک ادهار اپنے سر لیے بیٹها تها آج چکا بیٹها.مگر اس موضوع پر مزید کلام ، حسب ضرورت و فرصت پهر کبهی.اب کی بار بس اتنا ہی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے