کشمیرجہاں انسانیت شکست کھا گئی

8جولائی 2016ء سے اب تک ہم پر کیا گذری اور کیا گذررہی ہے دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں ۔سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں ۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔اخبارات اور ان کے مدیران نے دلی میں براجمان وزیراعظم کے موڈ کی رعایت کرنا اپنا شعار بنا لیا ہے ۔ایسے میں ایک ’’غدار قوم‘‘پر ٹوٹی قیامت کی داستانِ غم دنیا کے آزاد لوگ کیسے جان سکتے ہیں ۔ہم اہل اردو بھی ایک دوسرے کو ہی سناتے ہیں پر یہاں حالات ایسے پیدا کئے گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو سنانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور تواور کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں عزیزوں کے قتل ہو جانے کے بعدآنسوں بہانے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔

8جولائی سے اب تک انٹرنیٹ بند ہے !کیوں؟اس لئے کہ کشمیری اپنی داستانِ غم دنیا کو سنا سکتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ انھیں گٹھ گٹھ کر مرنے دیا جائے اس لئے اس کیفیت سے کسی کو نہیں کم سے کم دلی میں براجمان ’’گجراتی ٹیم‘‘کو مسرت حاصل ہو جاتی ہے ۔نہیں تو کیا دنیا میں آدم سے لیکر اب تک کسی قوم کے معصوم بچوں کو اندھا بنانے کا حوصلہ کسی نمرودو فرعون یا چنگیز نے کیا ہے ؟ شاید اسی لئے’’ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘کے آنکھوں کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم جب کشمیر پہنچی تواس نے صورتحال کو دھماکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال ہے۔ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سدرشن کولکرنی نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہو ئے کہا کہ ایسی صورتحال صرف جنگ زدہ علاقوں میں ہی ہوتی ہے اور ہم نے یہ صورتحال پہلے کھبی نہیں دیکھی ہے۔

ڈاکٹر سدرشن نے کہا ’’ میں نے اپنے 35سالہ کیریر کی سروس میں کھبی بھی ایسی صورتحال نہیں دیکھی ہے کیونکہ ایسی صورتحال صرف جنگ زدہ علاقوں میں ہی ہوتی ہے جہاں اتنی تعداد میں لوگ پلیٹ لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اواخر جولائی میں عدالت عالیہ نے مفاد عامہ عرضی پر سماعت کے دوران انتظامیہ کو صورتحال کے حوالے سے مکمل رپورٹ پیش نہ کرنے پر کھری کھری سناتے ہوئے کہاکہ یہ بات یاد رہے کہ جو بھی شخص اپنی بینائی کھودیتا ہے وہ اس دنیا کوہی کھو دیتا ہے اس کی کائنات ہی چلی جاتی ہے۔ اخبارات میں شائع تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے ڈویڑن بنچ نے کہاکہ اخبار میں 5سالہ بچے ناصر کی پیلٹ سے زخمی چہرے اور آنکھ کو دیکھیں اس تصویر کی طرف کوئی حساس روح دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتی ہے ۔پانچ سالہ بچے پر آپ سنگبازی کا الزام نہیں لگا سکتے ہیں۔

جی!ایک دانش کو لیجئے اس نے اپنے گھر کی حالت سدھارنے اور سنبھالنے کیلئے بہت سے خواب دیکھے تھے۔ لیکن 2016ء کی احتجاجی تحریک میں اس کے خوا ب چکنا چورہو گئے ۔ جولائی کے مہینے میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے فورسز اہلکاروں نے جب قہر برپا کیاتو دانش بھی اسکی لپیٹ میں آگیا۔فورسز کی کاروائی میں زخمی افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے کنبے کیلئے روٹی کاانتظام کرنے کیلئے گھروں سے باہر آئے تھے مگرفورسز کی فائرنگ کا شکار ہوکراب زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دانش احمد بٹ پریہ افتاد اس وقت ٹوٹ پڑی جب ’’ہال شوپیان‘‘ میں سی آر پی ایف اہلکاروں نے اندھادھند فائرنگ کر کے دانش کو شدید زخمی کردیا۔زخمی دانش کو سرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ کافی دنوں تک زیر علاج رہا۔دانش احمد بٹ کے بقول والد کے انتقال کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور گھر میں موجود ماں اور چھوٹے بھائی کو سہارا دینے کیلئے ڈرائیوری کا پیشہ اپنایا۔

10جولائی کو شام 7بجے روز مرہ کی طرح جب وہ گاڑی کو مالک کے گھر چھوڑنے کے بعد اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا تو ہال چوک میں سڑک سنسان تھی، ہر طرف بڑی تعداد میں پتھر اور انیٹیں بکھری ہوئی تھیں اور مظاہرین کی طرف سے ٹائیر جلائے گئے تھے۔ سڑک پراکا دکا لوگ ہی چل رہے تھے۔‘‘ دانش آہستہ آہستہ سڑک پر چل ہی رہا تھاکہ عین اسی وقت ہال چوک میں جپسی میں سوار سی آر پی ایف اہلکار نمودار ہوئے اورانہوں نے بغیر کسی اشتعال کے سڑک پر چل رہے لوگوں پر بندوقوں کے دہانے کھول دئے اور چاروں طرف گولیاں چلائیں۔دانش کو پہلی گولی پیٹ میں پیوست ہوگئی ، گولی لگتے ہی وہ گرپڑا اور اپنے ہوش کھو بیٹھا۔ دانش نے جب آنکھ کھولی تو خود کو اسپتال کے بستر پردراز پایا،اسپتال پہنچے کے بعد پتا چلا کہ اس کی بازو میں بھی گولی لگی ہے۔ ‘‘زخمی دانش کے چہرے پر ایک اداسی چھائی ہوئی ہے جو اس بات کا اظہار کررہی ہے کہ وہ اپنے کنبے کیلئے وہ سب کچھ نہیں کرپایاجو والد کے انتقال کے وقت ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔دانش بھی ان سینکڑوں بد نصیب نوجوانوں میں شامل ہے جن کو فورسز نے جان بوجھ کرنشانہ بنا یا۔

وانی محلہ کھنموہ (سری نگر)کے باپ کے تھرتھراتے جسم کو دیکھ لیجیے اس کے قدم لڑ کھڑارہے ہیں حالانکہ اس کی عمر ابھی لڑ کھڑانے کی نہیں ہے ۔معلوم ہوا کہ اس کی دنیاتب سے تاریک ہو چکی ہے جب سے اس نے اپنے 17 سالہ بیٹے کی لاش اپنے کندھوں پر اٹھائی ہے ۔یہ جولائی ہی کا مہینہ تھا کہ’’شہید سمیر‘‘ گھر سے پھوپھی کو عید کی دعوت دینے کیلئے نکلا مگر دوبارہ لوٹ کر نہیں ۔آیا بھی تو اس حال میں سارے علاقے کو رُلا دیا۔۔سمیر احمد وانی غریب والد کا ہاتھ بٹانے کے لئے ساتویں جماعت میں ہی تعلیم کو خیر آباد کیا تھا۔ سمیر کے والد بشیر احمد وانی ’’کان میں مزدوری‘‘ کا کام کرتا ہے ۔بڑی مشکل سے اپنے بچوں اور اہل و عیال کی پرورش کر پاتا ہے ۔وہ اس بات کی آس لگائے بیٹھے تھے کہ انکے بچے انکی پیری کا سہاراہی نہیں بنیں گے بلکہ ان کے بڑے ہوتے ہی انھیں مزدوری سے نجات مل جائے گی۔ مگر سمیر کی موت نے تو جیسے اس کی کمر توڑ دی۔بشیر احمد کی آنکھوں سے صاف جھلکتا ہے کہ کان کنی میں ہزاروں من پتھر سے زیادہ اس کے کندھوں پر اس کے جواں سال بیٹے کے تابوت کا بوجھ تھا جو اٹھایا ہی نہیں جا رہا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ کم عمری میں ہی سمیر بڑا سمجھدار اور سنجیدہ مزاج کا مالک تھا۔

سمیر کے والد کا کہنا ہے کہ10جولائی کو انکا بیٹااپنی پھوپھی کو عید کی دعوت پر بلانے کیلئے گھر سے روانہ ہواپانپور کے نئے بس اڈہ کے نزدیک وہ بنڈ کے راستے پھوپھی کے گھر کی طرف جارہا تھا تو اسی اثناء میں فورسز کی ایک گاڑی آگئی اور اس نے سمیرکو ہدف بنا کر گولی مار دی جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوا۔زخمی سمیر کو صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ پہنچایا گیا۔دیر سے اہل خانہ کو یہ خبر مل گئی تو جیسے آسمان ان پر گر پڑا۔والد نے کہا کہ ہم صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ پہنچے جہاں سمیر کا آپریشن کیا جا رہا تھا۔ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بشیر احمد کا کہنا ہے کہ سمیر کے پیٹ میں گولی پیوست ہوئی تھی۔پندرہ دنوں میں ڈاکٹروں نے سمیر کے تین آپریشن کئے تاہم24جولائی کو وہ ابدی سفر پر روانہ ہوا۔بشیر احمد وانی کا کہنا ہے کہ انکی دنیا ہی اب ویران ہوچکی ہے کیونکہ ان کے جگر کا ٹکڑا سمیر اب ان میں موجود نہیں رہا۔

18سال کے عاقب کو لیجیے مقدر کی ماری اس کی ماں اوربھائی آہیں بھر کر اپنی بے بسی کا اظہار کررہے ہیں۔تینوں کو دیکھتے ہی یہ گماں کرنا مشکل نہیں کہ اس کنبے پر کوئی بڑی افتاد آن پڑی ہوگی۔عاقب کے ٹانگ کی تین بار اب تک جراحیاں کی جاچکی ہیں۔اپنی ٹانگ پر لگی گولی کے بارے میں عاقب بتاتا ہے کہ ایک دن سہ پہر قریب ساڑھے 4بجے میں گھر سے نکلا اور شالہ ٹینگ چوک میں پہنچا،وہاں اس وقت بہت کم لوگ تھے لیکن کشیدگی تھی، کچھ فاصلے پر سیکورٹی اہلکار کھڑے تھے انہوں نے ان کواپنے پاس بلایا پھر اندھا دھند طریقے سے اس پر ٹوٹ پڑے۔اسی دوران میری ٹانگ پر گولی بھی چلائی گئی اور میں پہلے سے زمین پر گرتے ہوئے بیہوش ہوگیا‘‘۔عاقب کا کہنا ہے’’بعد میں کچھ لوگوں نے مجھے اسپتال پہنچایا۔عاقب جیسے اور بہت سارے لڑکے اور اس سے بھی کم عمر کے بچے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں لیکن عاقب کی کہانی قدرے الگ ہے۔عاقب ابھی ماں کی پیٹ میں ہی تھا کہ اسکے والد کو فورسز اہلکاروں نے شہید کیاتھا۔

عاقب کی والدہ کا کہنا ہے کہ26سال قبل 1990میں اسکے خاوند محمد اشرف بٹ، جو پیشے سے ڈرائیور تھا، کو فورسز اہلکاروں نے ڈلگیٹ سرینگرمیں شہیدکیا۔پھر6 سال بعد1996 میں عاقب کی والدہ نے پہلے خاوند کے بھائی کیساتھ دوسری شادی کی تاکہ بچوں کو سہارا مل سکے۔انکی زندگی ابھی سنورنے ہی جارہی تھی کہ بٹہ مالو میں فائرنگ کا ایک اور دلخراش واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے اسکا کہنا ہے کہ میرے دوسرے خاوند منظور احمد، جو پیشے سے ایک ٹیلر ماسٹر تھا، کو ’’بٹہ مالو بس اڈہ‘‘ کے نزدیک فائرنگ کے واقعہ کے دوران فورسز نے شہیدکیا۔صرف عاقب کے باپ اور چاچاکوہی شہیدنہیں کیا گیا بلکہ اسکے ماموں،مامی اور ماموں زاد بھائی کو بھی شہید کیا جا چکا ہے جبکہ نانی کے ہاتھ میں گولی لگی جس کے باعث اسکے ہاتھ کی تین انگلیاں کاٹنی پڑیں۔عاقب اس وقت ماں کے پیٹ میں ہی تھا۔عاقب مزدوری کرتا ہوں، تھوڑی بہت پڑھائی کی لیکن بہت غریب ہونے کی وجہ سے مزدوری کرنے کو ہی ترجیح دی تاکہ اپنے غریب کنبے کے دال چاول کا انتظام ممکن ہو سکے، عاقب شیشے کی مزدوری کرتا ہے وہی اس کاروزگار ہے لیکن اب وہ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ٹانگ میں بہت نزدیک سے گولی چلائی گئی ہے اس لئے زخم بھی بہت گہرا ہے اور ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ہیں۔

لولاب کے16سالہ طالب علم ٹانگ اور آنکھوں میں درد سے زبردست بے چینی میں ہے اور بار بار بستر پر ہی موجود اسکی والدہ کی گود میں سر ڈال رہا ہے تاکہ اس کو درد سے راحت مل سکے ۔ جہانگیر نامی یہ طالب علم نا قابل برداشت درد میں مبتلا ماں کی آغوش میں منہ چھپا رہا تھا۔شائد والدہ کی گود میں سر ڈالنے سے اس کو راحت محسوس ہو رہی تھی۔15جولائی کو لولاب میں احتجاجی مظاہروں اور ٹیر گیس شلنگ کی گونج سنائی دے رہی تھی، جہانگیر کووالدین نے گھر سے دور آدھ کلو میٹر ہمشیرہ کے گھر بھیجا تاکہ وہ وہاں سے اپنے بھانجے کو لائے۔ معصوم ماموں کاکمسن نواسہ ٹیر گیس شلو ں سے گھبرا رہا تھا اس لئے انھوں نے سوچا کہ اس کو ننیھال لایا جائے۔ جہانگیر کے بقول بہن کے گھر پہنچنے سے قبل ہی وہ جب اس جانب رواں تھا تو اس کو پیاس لگی۔ پیاس بجھانے کیلئے جب وہ ایک ٹیوب ویل کے نزدیک پہنچا تو پانی پیا لیکن اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔جہانگیر حالات کو سمجھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی ٹانگ میں در دپیداہوا اور وہ اچانک گر پڑا۔ مقامی لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے جہانگیر کو اسپتال پہنچانے کی کوشش کی تاہم پولیس اہلکاروں نے لوگوں کو منتشر کرنے کیلئے گولیاں چلائی ا ور پیلٹ بندوق کے دہانے کھول دئے جس کی وجہ سے لوگ زخمی جہانگیر کو خون میں لت پت ہوتے ہوئے بھی وہی چھوڑ کر چلے گئے اور جہانگیر کی آنکھوں پر بھی پیلٹ لگے۔ جس گاڑی میں جہانگیر کو اسپتال پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی حتیٰ کہ جہانگیر کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جہانگیر کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہیں قریب10بجکر30منٹ پر یہ خبر ملی کہ جہانگیر کو گولیاں مار دی گئی ہے اور زخمی حالت میں اس کو سرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا ۔جس کے فوراً بعد انہوں نے سرینگر کا رخ کیا اور جہانگیر کو متغیر حالات میں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ رفتہ رفتہ جہانگیر کی حالت میں اگر چہ بہتری نظر آرہی ہے تاہم انہیں اپنے جگر پارے کی آنکھوں کی روشنی کے بارے میں سخت فکر ہے۔انہوں نے کہا کہ جہانگیر کا والد ایک نجی اسکول میں استادہے اور اس کا بھائی بھی مدرس ہے۔ جہانگیر کو بھی وہ استاد بنانا چاہتی تھی مگر وقت کے اندھیروں نے ہمارا خواب چکنا چور کیا۔

15سالہ آصف جو خاموش تماشائی بنا ہوا اندر اور باہر جانے والے لوگوں پر اپنی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم آصف 22جولائی سر پر گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا جس کو فوراً اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپریشن کرکے اسکی جان تو بچالی مگر گولی لگنے سے آصف اپنی آواز کھوبیٹھاہے۔ آصف ریشی کے والد فیاض احمد ریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’جمعہ کو نماز پڑھنے کے بعد سانبورہ کاکہ پورہ میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے، لوگ ہلاکتوں کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے تھے جبکہ آصف اپنے چند دوستوں کے ہمراہ دور بیٹھا مظاہرین کا تماشہ دیکھ رہا تھا‘۔ اسی دوران جپسی میں سوارفورسز اہلکار اچانک نمودار ہوئے اورانہوں نے گولیاں چلانا شروع کردیں جس میں سے ایک گولی آصف کے سرپر جالگی، گولیوں کی آواز سن کر جب لوگ باہر آئے تو آصف کو خون میں لت پت پایا‘۔’’ زخمی آصف کوفوراًسرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپریشن کرکے اسکی جان بچالی۔‘‘آصف کے والدکا کہنا ہے کہ وہ پہلے گھر میں ہر بات پر ضد کیا کرتا تھا اوراپنی بات منوانے کیلئے شور غل مچاتا تھا مگر گولی لگنے کے بعد سے وہ خاموش بیٹھا ہے،اب نہ ہمیں اس کا شور سنائی دیتا ہے نہ ہی اس کی ضد کا پتہ چلتا ہے۔ گولی لگنے کے بعد ڈاکٹروں نے آصف کے سر سے گولی نکالنے کیلئے آپریشن کیا مگر آپریشن کے بعد سے آصف بات کرنے سے قاصر ہے۔ آصف کے والد کا کہنا ہے ’’آصف نے آواز کھونے کے بعد بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا وہ خیریت پوچھنے کیلئے آنے والے ہر شخص کا پر نم آنکھوں سے استقبال کرتا ہے مگر جب درد حد سے گزرتا ہے تو وہ صرف ہاتھ اور گریباں پکڑ کر تکلیف کا اظہا کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے