بہت ہنسی آتی ہے

مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب میں اپنے بیٹے کو اپنے موبائل فون پر کھیلتا دیکھ ڈانٹتا ہوں اور وہ کہتا ہے ۔۔ بابا۔۔ آئندہ نہیں کروں گا۔۔ آئندہ فون بغیر پوچھے نہیں اٹھاؤں گا مگر دو تین گھنٹے بعد اگر پھر اس کا داؤ لگتا ہے تو وہ پھر میرا فون لے کر غائب ہو جائے گا۔میری بیٹیاں جب شرارت کرتی ہیں اور ماں کے ڈانٹنے پر اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر کہتی ہیں آئندہ نہیں کروں گی لیکن پھر تھوڑی دیر میں ہی وہی شرارت پھر کرتی پائی جائیں گی۔ایسے میں ہنسی کے ساتھ ساتھ ان پر بے پناہ پیار بھی آتا ہے۔

مجھے بہت ہنسی آتی ہے اپنے بعض اینکرز کی ایمان افروز باتیں سن کر جب وہ تمام سیاستدانوں کو کرپٹ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان کا کہنا ہوتا ہے یہ فلاں سیاستدان معمولی سا کارخانے دار تھا اب ایک درجن فیکٹریوں کا مالک کیسے بن گیا۔۔ یا پھر فلاں سیاستدان اخلاقی طور پر کرپٹ ہے جس کی کئی عورتوں کے ساتھ شناسائی ہے۔۔ ایسے لوگ یہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں جو خود اینکر بننے سے پہلے کرایہ کے مکان میں رہتے تھے اب ہر شہر میں کیا دبئی اور برطانیہ میں بھی ان کے مکانات ہیں۔۔ کئی ایسے ہیں جنہوں نے ہر شہر میں ایک محل کے ساتھ ساتھ ایک رانی بھی رکھی ہوتی ہے لیکن ٹی وی دیکھنے والا عام ناظر اسے اللہ کا ولی سمجھ رہا ہوتا ہے۔

مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب ہمارے سیاست دانوں کے مختلف بیانات سنتا ہوں۔۔ جیسے عمران خان کہتے ہیں کبھی اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولوں گا ۔۔۔۔لیکن ہر ہفتے نیا بیان ، نیا یو ٹرن سامنے ہو گا۔۔ مجال ہے کوئی انہیں ان کا بیان یاد کر ا سکے۔جب وہ کسی کو جھوٹا کہتے ہیں تو دائیں بائیں کھڑی ان کی اے ٹی ایم مشینیں بھی زیر لب مسکرا دیتی ہیں۔

مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب ہمارے چاچا شیخ رشید احمد ہر مہینے حکومت جانے کی نئی نئی تاریخ دیتے ہیں مگر اپنی پچھلی پیش گوئی کے ناکام ہونے پر شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں پہلے قصائی بھاگ گیا تھا اب بکرا بھاگ گیا ہے۔۔ لیکن پھر بھی ایک مہینے میں حکومت چلی جائے گی۔ ایک ماہ بعد بھی اسی طرح سگار ہاتھ میں پکڑ کے کسی نئے پروگرام میں کسی نئے اینکر کے ساتھ ون آن ون پروگرام میں پھر نئی تاریخ دیتے ہیں تو وہ مشہور ڈائیلاگ یاد آ جاتا ہے جب ہیرو جج کو نئی تاریخ دینے پر جھاڑ پلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ ۔۔ تاریخ پر تاریخ۔۔۔ کیوں نئی تاریخ ہر بار ملتی ہے۔۔ لیکن ایسا کوئی سوال ہمارا اینکر پوچھ لے، ایسا تو ممکن نہیں۔۔ کیونکہ یہ ریٹنگ کا معاملہ ہے۔

جج سے یاد آیا۔۔ اگر توہین عدالت کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب ایک دن جج صاحبان کہیں کہ حکومت نااہل ہے، کام ٹھیک نہیں کر رہی ، لوگ انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیں ۔ اخبار یہ خبر شائع کر دیں تو عدالت صحافیوں کو جھاڑ دیتی ہے، کہا جاتا ہے میڈیا حقائق کے برعکس خبر شائع کرتا ہے۔ اب یہی عدالت جس نے بہت ساری خبروں پر ازخود نوٹس لیا، کہتی ہے اخبار تو پکوڑے فروخت کرنے کے کام آتے ہیں۔ جی ہاں یہ درست ہے میں نے بھی کئی بار روٹیاں خریدیں تو اخبار میں شہ سرخی لگی ہوتی تھی ۔۔ چینی مہنگی نہیں ہونے دیں گے،چیف جسٹس ۔۔ اگلے ہفتے پتا چلتا تھا عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں چینی کی قیمت میں اضافہ قانونی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

ایک اخباری خبر پر حکومت نے بول چینل کے خلاف کارروائی کی، ایگزیکٹ اور بول دونوں بند ہو گئے، کروڑوں اربوں روپے کی سرمایہ کاری لانے والا شعیب شیخ ۔۔ ایک ہی جھٹکے میں جیل جا پہنچا ، صرف اخباری خبر پر۔۔ اس کی ضمانت نہیں ہوتی تھی جبکہ اس کے خلاف چالان بھی پیش نہیں ہو رہا تھا لیکن عدالت سے کون پوچھے بھائی اخباری خبر پر یہ سب ایکشن کیوں؟ لیکن کیا کریں ہمیں تو صرف ہنسی ہی آ سکتی ہے جب عدالت پانامہ کیس میں کہتی ہے اخباری خبریں ثبوت نہیں۔۔ ہنسی تو بنتی ہے ناں۔

مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب کسی پنجابی یا اردو فلم میں ہیرو بڑھکیں مارتا ہے۔۔ اوئے میں تیریاں لتاں وڈھ دیاں گا (اوئے میں تیری ٹانگیں توڑ دوں گا)۔۔ تو مجھے اپنے خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف یاد آ جاتے ہیں ۔۔ جنہوں نے لوڈ شیڈنگ تین ماہ میں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا ایسا نہ کر سکا تو میرا نام تبدیل کر دینا۔۔ جب انہوں نے جوش خطابت میں ڈائس پر لگے ڈھیر سارے مائیک نوچتے ہوئے کہا تھا اگر انہوں نے زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو ان کا نام بدل دیا جائے۔

ہم نے منظر بدلتے دیکھا ، جب مسلم لیگ نواز اقتدار میں آئی تو نواز شریف نے زرداری کو رائے ونڈ محل میں بلایا۔ سب نے کہا وہاں کیمرے زیادہ بھیج دیئے جائیں کیونکہ آج زرداری صاحب کو گھسیٹا جائے گا۔۔ جب کیمرے آن ہوئے تو نوازشریف لے کر جا رہے تھے زرداری کو۔۔ سب بہت خوش تھے کہ ایک کرپٹ شخص کو یہ میاں برادران گھسیٹیں گے لیکن وہ دونوں بھائی انہیں ڈائننگ ٹیبل پر لے گئے جہاں انواع و اقسام کے کھانے پکائے گئے تھے اور خاص طور پر زرداری صاحب کی پسند کے کھانے پکوائے گئے تھے۔۔ ہمیں بھی اس وقت پتا چلا گھسیٹنا اسے کہتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ تین ماہ میں ختم کرنے کا اعلان بھی ہوا تھا ۔۔ وہ اب تین سال بعد بھی ختم نہیں ہوئی مگر دنیا انہیں اب بھی شہباز شریف کہہ کر بلاتی ہے۔ نام کب تبدیل کیا جائے گا یہ کوئی پوچھ لے تو وہ اسے یوتھیا قرار دے دیں گے۔

مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے کاروبار ہم سے چھین لیے گئے۔۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم در بدر ہو گئے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے پاس کوئی روپیہ پیسہ نہیں بچا تھا۔۔ پھر بھی ہم نے صفر سے کام شروع کیا۔۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے برکت ہوئی اور ایک کے بعد دوسری ، دوسری کے بعد تیسری اور چوتھی۔۔ جتنی کمپنیاں گنوائی جائیں وہ کم ہیں۔۔ پھر بھی ہنسی آتی ہے جب کوئی مجھے بتائے کہ جن لوگوں نے لٹ پٹ جانے کے بعد جدہ میں ایک چھوٹی سی سٹیل ملز سے کام شروع کیا وہ پھر سے کھرب پتی ہو گئے لیکن ان ماہرین سٹیل کے دور میں ایک بہت بڑے سٹرکچر والی حکومتی سٹیل مل اس لیے نجکاری کے لیے پیش کی جا رہی ہے کہ وہ خسارے میں ہے۔
ہنسی تو یہ سن کر بھی آتی ہے کہ وہ شخص جس نے کسی زمانے میں پاکستان سٹیل ملز کو کامیاب بنایا تھا وہ بھی اب مسلم لیگ نواز کا سینیٹر ہے مگر وہ بھی بے بس ہے۔ اتنی پیاری پیاری باتوں پر سارا سارا دن ہنستے رہتے ہیں لیکن کہتے ہیں ناں جمہوریت بہترین انتقام ہے اس لیے اس جمہوری دور میں جب بجلی ، گیس دستیاب نہ ہونے کے باوجود بل بھاری بھاری آئیں تو ہنسی کو بریک لگ جاتی ہے۔ ملک کے ساتھ مذاق ہو تو برداشت ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی میری ذات کے ساتھ مذاق کرے یہ مجھے قطعی برداشت نہیں، اس بات پر میں ہنس نہیں سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے