کشمیریوں کے ذریعے لڑی جانے والی پراکسی جنگیں

برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی پاکستان و بھارت کی جانب سے کشمیر کو حاصل کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح مہاراجہ کشمیر کے ذاتی دوست ہونے کے باعث کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے قائل نہیں تھے اس لیے انہوں نے مہاراجہ کشمیر سے معائدہ قائمہ کر لیا۔

لیاقت علی خان اور فوجی جونیلوں نے قبائلی جھتوں کو قائد اعظم کو اعتماد میں لیے بغیر کشمیر کے مشن پر بھیج کر تقسیم کشمیر کی بنیاد رکھی ۔بھارت پہلے ہی اسی تاک میں بیٹھا تھا کہ کہیں سے کوئی گڑ بڑ ہو اور وہ آگے بڑھ کر کشمیر پر قبضہ جمالے ،پاکستان نے قبائلی یلغار کر کے بھارت کو بھر پور موقع فراہم کیا۔

تاریخ پاکستان میں پہلی پاک بھارت جنگ کا بڑی شد و مد سے ذکر کیا جاتا ہے مگر اس جنگ میں” نیولے “کو سانپ سے لڑانے اور شاہینوں کے جھپٹا مارنے کا کوئی ذکر نہیں. پاکستان نے یہ جنگ قبائلیوں اور کشمیر کے مقامی باشندوں کے ذریعے لڑی۔قبائلیوں کو مال غنیمت کا لالچ دے کر لایا گیا ۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ ڈوگرہ فوج سے لڑنے کیلئے پنجاب پولیس کی رائفلیں دینے کا بھی وعدہ ہوا مگر وہ نہ مل سکیں ۔پرمٹ اورٹکٹوں کا معاملہ بھی مشکوک ہی رہا ۔قبائلیوں کی سپورٹ کیلئے برٹش آرمی کے ریٹائرڈ کشمیری فوجیوں کو جمع کر کے مذہب کا تڑکا لگایا گیا۔ وادی کشمیر کے عام عوام ڈوگرہ سامراج اور مظالم سے تنگ تھے اس لیے وہ مذہبی ”علاموں“کے بہکاوے میں آگئے اورقبائلی لشکر کے دو بدو کشمیری عوام کے قتل عام کا فریضہ سر انجام دیا ۔

مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں جانے کے 6ماہ بعد تک پاکستان کی فوج کشمیر میں داخل نہیں ہوئی تھی ۔1948کے وسط تک جزوقتی جہادی اور کشمیر کے سابق فوجی ہی اللہ اور پاکستان کی مدد سے ایک سال تک بھارتی فوج کو مزید پیش قدمی سے روکے رہے۔ یہ وہ پہلی جنگ تھی جو پاکستان نے بھارت کے ساتھ لڑی۔

پاکستان اور بھارت کی دوسری جنگ 1965میں لڑی گئی ۔پاکستان نے آپریشن”جبرالٹر “کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کا منصوبہ بنایا ۔پنجاب کے جہادیوں کی بڑی کھیپ تیار کر کے خفیہ طور پر کشمیر میں داخل کر دی گئی۔ میدانی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جہادی پہاڑوں پرکارگر ثابت نہ ہو سکے .بھارت کو جب اس عظیم منصوبے کی بھنک پڑی تو اس نے لاہور شہر پر حملہ کر دیا اور پھر پاکستان یہ جنگ بھی جیت گیا بس تھوڑی بہت انسانیت کا قتل ہوا ۔

1971ء کی جنگ کا ذکر کرنا مناسب نہیں ۔پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا تھا مگر یہودونصاریٰ اور ہندو بنئے کو اس بات کی بھنگ پڑ گئی تھی اور سب نے مل کربنگال کو پاکستان کا حصہ بنادیا جو کہ عالمی سازش تھی ۔

دوسرا یہ کہ جنرل نیازی کا جوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ان کی مجبوری تھی فوجی جوانوں کی اتنی تنخواہیں نہیں تھیں کہ رات کو کسی کوٹھے پر جا کردل بھلانے کا سامان کرتے ۔حالت جنگ میں جوانوں کو گھر بھی تو نہیں بھیجا جا سکتا تھا اور پھر جنگ میں سب کچھ تو جائز ہوتا ہے ناں۔بس بری بات کو یاد نہیں کیا جاتا ۔ مٹی پاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

کارگل جنگ کو بھی تاریخ میں پاکستان بھارت کی جنگ ہے ۔کتابیں پڑھنے ،کتے پالنے اور گالف کھیلنے کے شوقین جنرل پرویز مشرف کو وزیر اعظم نواز شریف نے اس لیے آرمی چیف کا عہدہ دیا کہ موصوف اپنے شوق کی تکمیل میں لگے رہیں گے اور میں اپنی حکومت پوری کر لوں گا۔

جنرل پرویز مشرف پہلے تو ”یس سر“ کی پالیسی پر عمل پیرارہے مگر بعدازاں اقتدار پر قبضے کیلئے وزیر اعظم کواعتماد میں لیے بغیر کارگل کی برف پوش چوٹیوں پر فوجیں چڑھادیں۔نادرن لائیٹ انفٹری (این ایل آئی)کی درجنوں یونٹوں کو سول کپڑوں میں ملبوس کر کے آگے بھیج دیا ۔اس جنگ میں” کشمیر کاسٹ “کو لڑائی کیلئے منتخب کیا گیا یوں یہ جنگ بھی کشمیر میں کشمیریوں ہی کے ذریعے لڑی گئی ۔

مشرف دور میں وانا آپریشن کا آغاز کیا گیا ۔یہ جنگ بظاہر پاکستان کے ہی پیدا کر دہ طالبان کے خلاف تھی ۔امریکہ نے پاکستان کے ذریعے طالبان کا وجود قائم کر کے افغانستان میں روس کو شکست دے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا ۔

2001میں امریکہ کو انہی طالبان سے خطرہ محسوس ہوا تو اس نے افغانستان پر حملہ کر دیا. اب طالبان بھی پناہ کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرف لوٹ آئے جس پر امریکہ نے پاکستان کے ذریعے ہی ان طالبان کےخلاف آپریشن کرایا ۔اسلحہ اور جنگی سازو سامان وافر مقدار میں دیا گیا ۔

فوج کے مڈل کلاس طبقے کی مخالفت کے باوجود یہ آپریشن شروع کر دیا گیا . اس جنگ میں بھی آزادکشمیر رجمنٹ (اے کے اجمنٹ )اور نادرن لائیٹ انفنٹری(این ایل آئی)کو فرنٹ لائن پر رکھا گیا، این ایل آئی گلگت بلتستان کے جوانوں پر مشتمل ہے اور ان کی اکثریت ”مخصوص” فرقے سے ہے یوں فوج نے اس جنگ میں مذہبی فرقہ واریت کا خوب سہارا لیا۔

مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہونے پرطالبان نے ایک بار پھر پوری قوت کا مظاہرہ کیا اور قبائلی علاقوں سے نکل کر سوات تک اپنی سلطنت قائم کر دی لیکن حکومت پاکستان نے کشمیر کے زلزلہ متاثرین کی امداد سے طالبان کو منہ توڑ جواب دیا ۔

سوات آپریشن میں بھی این ایل آئی اور اے کے رجمنٹ کا بھر پور استعمال کیا گیا۔پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں سب سے زیادہ فوجیوں کی لاشیں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھیجی گئیں مگر مجال ہے کہ کبھی ایک بھی شہید کا میڈیا پرچرچہ کیا ہو۔

سوات آپریشن سے قبل مشرف دور میں بلوچستان میں ہونے والے اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن میں بھی کشمیری جوانوں کو استعمال کر کے کشمیر میں لاشیں بھیجی گئیں ۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب کی بار مقتدر اداروں پر عائد دہشت گردوں کی پشت بانی کا داغ دھونے کیلئے کنٹرول لائن پر جنگ شروع کر رکھی ہے . لائن آف کنٹرول پر مجاہد بٹالین تعینات ہے جو کہ مجاہد اول سردار عبدالقیوم کے نام پر قائم کی گئی ہے اور اسے پاکستان آرمی کے برابر سہولیات بھی میسر نہیں ہیں ۔

بھارت کو نیچا دکھانے کیلئے گزشتہ 2ماہ سے کنٹرول لائن پر جاری اس جنگ میں 13سے زائد فوجی جوان شہید ہوئے جن میں سے اکثریت کی لاشیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھیجی گئی ہیں یہ جنگ بھی ”کشمیر کاسٹ“ کے ذریعے سے ہی لڑی جارہی ہے ۔

متنازع علاقوں اور وہاں کے باشندوں کو دنیا کی ہر طاقت اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے۔ کارکل جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی لاشیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھیجی گئی اتنی اگر پنجاب یا سندھ کے علاقوں میں جاتی تو شاید یہ ”دجالی” میڈیا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا ۔یہ لاشیں بھی وہاں بھیجی جارہی ہیں جہاں کے عوامی نمائندے اندھے اور عوام گونگے جبکہ سیاستدان بہرے ہیں۔ بس اس اندھے گونگے اور بہرے پن کا بھر پور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے