نیا آرمی چیف؟

کبھی کبھی انسان اپنی قسمت کے ہاتھوں بے بس ہو جاتا ہے۔ مشکل اوقات میں بہت سے ذہین انسان اپنی عقل اور تجربے کو سامنے رکھ کر ایک بہترین فیصلہ کرتے ہیں لیکن اگر اس بہترین فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو تو انسان اپنی قسمت کے ہاتھوں ہار جاتا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد بھارتی حکومت نے برطانوی سرکار کے نمائندے لارڈ مائونٹ بیٹن کی ملی بھگت سے ریاست جموں و کشمیر پر فوجی قبضے کی کوشش شروع کی تو قائداعظم نے سربراہ مملکت کی حیثیت سے پاکستانی فوج کو حکم دیا کہ وہ بھارت کا راستہ روکے لیکن آرمی چیف نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ یہ انکار زبانی نہیں بلکہ عملی تھا۔ اس نےحکم تو سن لیا لیکن حکم پر عمل درآمد نہ کیا اور یوں بھارت نے آسانی سے ریاست جموں وکشمیر پر قبضہ کرلیا۔

قائداعظم کی حکم عدولی کرنے والے اس آرمی چیف کا نام جنرل سرفرینک میسروی تھا جو 15اگست 1947ء کوپاکستان کا پہلا آرمی چیف بنا تھا۔ یہ واقعہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں تنائو کا آغاز تھا۔ قائداعظم نے اس نافرمان آرمی چیف کو 10 فروری 1948ء کو اس کے عہدےسے ہٹادیا۔ مشکل یہ تھی کہ اس زمانے میں آرمی چیف کے عہدے پر تقرری کیلئے کوئی سینئر مسلمان فوجی افسر دستیاب نہ تھا لہٰذا جنرل سر ڈوگلس گریسی کو نیا آرمی چیف بنایا گیا۔

گریسی کی ریٹائرمنٹ قریب آئی تو میجر جنرل افتخار خان کو پاکستان آرمی کا نیا سربراہ نامزد کردیا گیا۔ انہوں نے اپنا عہدہ نہیں سنبھالا تھا کہ وہ اور بریگیڈیئر شیر خان ہیلی کاپٹر کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ اس وقت اسکندر مرزا سیکرٹری دفاع تھے۔ انہوں نے سنیارٹی کے لحاظ سے میجر جنرل اکبر خان اور میجر جنرل این اے ایم رضا کی بجائے میجر جنرل ایوب خان کو آرمی چیف بنانے کی سفارش کی۔

وزیراعظم لیاقت علی خان نے دو سینئر افسران کو نظرانداز کر کے ایوب خان کو آرمی بنا دیا۔ صرف نو ماہ کے بعد انہیں راولپنڈی کے ایک جلسے میں شہید کردیا گیا جس کے بعد پاکستان کئی سال تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ وزیراعظم بدلتے رہے لیکن آرمی چیف نہیں بدلا۔ ایوب خان نے دو مرتبہ توسیع لی اور پھر اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر 1958ء میں مارشل لاء لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے اسکندر مرزا کو فارغ کر کے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا جس کے بعد سول ملٹری تعلقات میں کبھی توازن قائم نہ ہوسکا۔

سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن کی زیادہ ذمہ داری ان سیاسی رہنمائوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے میرٹ پر آرمی چیف کی تقرری کرنے کی بجائے اپنے لئے مناسب آرمی چیف تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا تلاش کردہ آرمی چیف نامناسب نکلا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ جس جس نے پاکستان میں مارشل لاء لگایا اس کی تقرری سنیارٹی کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔

جنرل ایوب خان کی تقرری میں دو سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کیا گیا اور پھر جس آرمی چیف نے جنرل ایوب خان سے استعفیٰ لیا وہ یحییٰ خان تھا۔ ان صاحب کو ایوب خان نے دو سینئر جرنیلوں الطاف قادر اور بختیار رانا کو نظر انداز کر کے آرمی چیف بنایا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جنرل گل حسن کو آرمی چیف بنایا گیا ۔ ان کی تقرری میں ان سے سینئر جنرل ٹکا خان نظر انداز ہوئے۔

جنرل گل حسن صرف اڑھائی ماہ تک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کےساتھ چل سکے۔ جب بھٹو نے دیکھا کہ آرمی چیف ٹف ٹائم دیتا ہے تو اسے ہٹا کر جنرل ٹکا خان کو لے آئے۔ جنرل ٹکا خان کے بعد جنرل ضیاء الحق کو لایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے قابل اور جہاندیدہ سیاستدان نے اپنا اقتدار بچائے رکھنے کی خاطر سات سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کیا اور جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنا ڈالا۔ ان صاحب نے صرف جمہوریت کا بوریا بستر گول نہ کیا بلکہ ججوں کے ساتھ مل کر بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا اور یہ پھانسی تاریخ میں جوڈیشل مرڈر کہلاتی ہے۔

چوتھی فوجی بغاوت جنرل پرویز مشرف نے کی تھی۔ 1998ء میں جنرل جہانگیر کرامت نے وزیراعظم کے ساتھ اختلافات کے باعث اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تو نوازشریف نے دو سینئر جرنیلوں جنرل علی قلی خان اور جنرل خالد نواز کو نظرانداز کرتے ہوئے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا اور مشرف نے ایک سال کے اندر اندر نوازشریف کووزیراعظم ہائوس سے اٹک قلعے میں اور وہاں سے جدہ پہنچا دیا۔

مشرف نے وردی اتار کر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف بنایا تو ایک سینئر جرنیل جنرل خالد قدوائی کو نظرانداز کیا گیا۔ جنرل کیانی نے مارشل لاء تو نہیں لگایا لیکن 2008ء میں مشرف سے استعفیٰ لینے اور پھر انہیں بیرون ملک بھجوانے میں کیانی صاحب کا خاموش کردار مشرف کو اچھی طرح معلوم ہے۔ اسی لئے وہ جنرل کیانی پر اکثر غصہ نکالتے رہتے ہیں۔

2013ء میں نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہیں مشورہ دیا گیا کہ جنرل کیانی کو توسیع دیدیں لیکن انہوں نے یہ مشورہ قبول نہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ 2013ء میں نئے آرمی چیف کی تقرری سے قبل میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا؟ ان قیاس آرائیوں کے باعث حکومت کے اندر کچھ لوگوں نے باقاعدہ لابنگ شروع کردی۔ مختلف وزراء مختلف ناموں کے لئے جوڑ توڑ کرنے لگے۔ ایک جرنیل کیلئے کسی نے کوئی سفارش نہ کی اور وہ تھے جنرل راحیل شریف۔ وزیراعظم نے جنرل ہارون اسلم اور جنرل راشد محمود کو نظرانداز کر کے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنا دیا۔ راشد محمود چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بنا دیئے گئے اور ہارون اسلم نے استعفیٰ دیدیا۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے تین سالہ دور میں میڈیا سے بہت داد سمیٹی۔ شمالی وزیرستان میں شروع کیا گیا آپریشن ضرب عضب ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے تین سالوں میں سول ملٹری تعلقات کے سامنے بہت سے سوالیہ نشانات موجود رہے۔

پرویز مشرف کا ٹرائل شروع ہونے سے لیکر ان کی بیرون ملک روانگی سے جڑے ہوئے بہت سے واقعات کے ذکر کیلئے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ صرف یہ عرض ہے کہ 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سول ملٹری تعلقات میں تنائو کا باعث بنا اور 2016ء میں بلوچستان کے علاقے نوشکی میں طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں موت کے بعد ایسے سوالات پیدا ہوئے جن کا کسی کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہ تھا۔

پاکستان کے دشمنوں نے سول ملٹری تعلقات کو مزید الجھانے کیلئے بہت سے کھیل شروع کئے لیکن وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف نے صبر و استقامت سے تین سال ایک دوسرے کے ساتھ گزار دیئے۔ اب جنرل راحیل شریف کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا جارہا ہے جو بہت اچھی روایت ہے۔ اگر حکومت ایک اچھی روایت کا آغاز کررہی ہے تو میڈیا کو بھی ایک اچھی روایت شروع کرنی چاہئے۔ میڈیا پر آئندہ آرمی چیف کے حوالے سے قیاس آرائیاں نہ کی جائیں تو بہتر ہے۔ عوام کو یہ ضرور بتایا جائے کہ سینئر ترین فوجی افسران کون ہیں لیکن ان افسران کی مبینہ خوبیوں اور خامیوں پر پبلک ڈبیٹ کرنا مناسب نہیں۔

ہمیں حکمرانوں کو تاریخ کا آئینہ ضرور دکھانا چاہئے اور بتانا چاہئے کہ آرمی چیف کی تقرری اپنے مفاد میں نہیں بلکہ ملک کے مفاد میں ہونی چاہئے لیکن اپنی پسند و ناپسند کا اظہار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جو بھی آئے گا وہ کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ ادارے کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

بشکریہ :روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے