آہ ! شفیق مرزا

گزشتہ روز انتہائی دکھ کے ساتھ یہ خبر پڑھی کہ میرے روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ کے وقت کے کولیگ اور دوست محمد شفیق مرزا انتقال کرگئے ۔ چند روز قبل ایک موٹر سائیکل سوار نے انہیں ٹکر مار دی تھی جس کی بناپر وہ زخمی ہوگئے تھے اور یہ حادثہ ہی ان کی وفات کا سبب بن گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

محمد شفیق مرزا جس قدر علمی ذوق رکھتے تھے اسی قدر اعلی پائے کے وہ ادیب اور بہترین مترجم بھی تھے۔وہ محبت کرنے والے انسان تھے۔وہ انتہائی سادہ مزاج ،سادہ دل رکھنے والے شخص تھے۔آج کے دور کے بڑے بڑے نامور اور جغادری قسم کے صحافی علمی اعتبار سے شفیق مرزا ہی کاپانی بھرتے تھے ۔اﷲ نے انہیں بلاکی لیاقت ، قابلیت اور ہنر عطا کیا تھا ۔

عمومی طورپر وہ ایک صحافی کے طورپر ہی جانے جاتے تھے لیکن ان کی شناخت اور شخصیت کا ایک اہم اور نمایاں پہلو ان کی عقیدہ ء ختم نبوت سے ہردرجہ وابستگی تھی جو عام لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی ۔ شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ وہ قادیانیت سے تائب ہوکر دائرہ shafiq mirza2اسلام میں داخل ہوئے تھے اور یہ عمل انہوں نے شعوری طورپر کیاتھا کسی جبر و اکراہ کی بنا پرنہیں کیا تھا ۔یہی عمل ان کی زندگی کا سنگ میل ثابت ہوا جس نے ان کی کایا کلپ کردی۔ وہ راسخ العقید ہ مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے اور دائمی عزت کے حقدار ٹھہرے ۔

قادیانیت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ جس قدر قادیانیت کے اندرون سے واقف تھے وہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا تھا کہ گھر کا بھیدی ہونے کے ناتے ان سے کچھ بھی مخفی نہیں تھا اور پھر انہوں نے اس حوالے سے خوب لنکا ڈھائی اور اس نام نہاد مذہب کی حقیقت لوگوں پر آشکا رکرتے ہوئے اس کی چیرہ دستیوں اور پراسراریت کے پردوں کو چاک کیا ۔انہیں اپنی اس جرائت اور بے باکی کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی لیکن انہوں نے اس کی پراو نہیں کی اور مردانہ وار مشکلات کا سامنا کیا۔

وہ مضبوط اعصاب کے مالک تھے اور پختہ سوچ اور مصمم ارادے نے انہیں استقامت بخشی تھی چنانچہ تمام تر مسائل و مصائب کے باوجود وہ اپنے ارادے اور عزم پرپوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور ہر وار کو پورے حوصلے اور ہمت کے ساتھ سہتے رہے ۔بلاشبہ انہوں نے اپنے کردار عمل سے یہ ثابت کردیا کہ اگر انسان کو ئی فیصلہ کرلے اور پھر پوری استقامت کے ساتھ اس پر چٹان کی صورت کھڑا رہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے متزلزل نہیں کرسکتی اور زمانے کے حوادث اور جبرو ستم کی آندھیاں اس کی عزیمت کا چراغ گل نہیں کرسکتیں ۔ان کے دل میں چراغِ مصطفوی ﷺ روشن تھا اور وہ اس سے دوسروں کے دلوں کی تیرگی کو مٹانے کی سعی کرتے رہے ۔

میری شفیق مرزا سے شناسائی تو اگرچہ ان کی روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ سے وابستگی اختیار کرنے سے پہلے کی تھی لیکن ان کی جنگ کے عملہ ء ادارت میں شمولیت کے بعد یہ شناسائی دوستی shafiq mirza1میں بدل گئی ۔وہ اکثر پیدل چلا کرتے تھے ۔ صبح دس بجے کے قریب مال روڈ پر نہروالے پل سے وہ ایچی سن کالج اور گورنر ہاوس کے راستے اپنے آفس آتے تھے اور اس راستے میں کہیں نہ کہیں عموماً میری ان سے مڈبھیڑ ہوجاتی تھی ۔

وہ میرے فیس بک فرینڈ بھی تھے اور میری پوسٹس پر اکثر کمنٹس کرتے اور صائب مشورے بھی دیتے تھے ۔شفیق مرزا ایک شفیق اور ملنسار آدمی تھے ان کی شخصیت کا اعجاز ان کی عاجزی اور انکساری میں تھا ۔ انگریزی محارورہ down to earth ان پر پوری طرح فٹ آتا تھا۔

برسوں پر محیط تعلق ہونے کے باوجود مجھے نہیں یاد کہ ان کی میرے ساتھ کبھی ناراضی یا تلخ کلامی بھی ہوئی ہو۔ہمشیہ مسکراہٹ چہرے پرسجائے وہ مجھے بڑے تپاک سے ملتے اور ہلکی پھلکی چھیڑ خانی اور چہلیں بھی ہمارے درمیان ہوتی تھیں کہ مزاج میں شگفتگی اور شرارت کا عنصر دونوں میں پایا جاتا تھا۔سو خوب گزرتی تھی جب کبھی ہم دو دیوانے بیٹھتے تھے ۔

ان کی وفات سے بلاشبہ میں ایک پرخلوص دوست اور دنیائے صحافت ایک پیشہ ور و مستعد صحافی اور بہترین اداریہ نویس سے محروم ہوگئی ہے ۔ اس واقعہ نے مجھے بہت دل گرفتہ کردیا ہے . یہ روائتی جملہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ انہوں نے عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی جو لو اپنے دل میں جگا رکھی تھی وہ یقینآ ان کی بخشش کا سب سے بڑ ا ذریعہ اور وسیلہ بنے گی اور میرا دل اور وجدان اس کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ یقینی طورپر جنت الفردوس کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے ۔ﷲ ان کے درجات بلند فرمائے ۔(آمین)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے