دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی

ملک کے سیاسی حلقوں اور بالخصوص سندھ کے شہری علاقوں کے مختلف مکاتبِ فکر کے افراد کے درمیان آجکل یہ بحث جاری ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اردو بولنے والے افراد کی بڑی اکثریت کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے ایک نجات دہندہ کے طور پر سامنے آسکیں گے یا نہیں اور کیا مستقبل قریب میں ایم کیو ایم کی سربراہی جنرل مشرف کو سونپے جانے کا امکان تا حال موجود ہے؟

ماضی میں جب جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا اُس کے بعد حکومت سازی کے عمل میں اُنھیں ایم کیو ایم کی ضرورت تھی۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور یوں دوستی کا یہ سفر شروع ہوا۔

ایم کیو ایم کے علاوہ جنرل مشرف کی ٹیم میں جو لوگ شامل تھے آج ان میں سے اکثر کا نام و نشان بھی نہیں ملتا اور نہ ہی اُن کی عوامی حمایت موجود ہے۔ جنرل مشرف کےبہت سے پرانے ساتھیوں نے پارٹیاں بدل لیں۔

اُس وقت مشرف کی وجہ سے کراچی میں جو ترقیاتی کام کروائے گئے تھے اور ایم کیو ایم کے نمائندوں کو اختیارات دئے گئے تھے اُس کی بنیادی وجوہات یہ تھیں کہ اُس وقت جنرل مشرف کے پاس ملک کا طاقتور ترین عہدہ یعنی آرمی چیف کا عہدہ تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ ملک کی صدارت کے منصب پر بھی فائز تھے یعنی وہ تنہا اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔

دوسری وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے دل کھول کر مشرف حکومت کو فنڈز دئے تھے جن کا بڑا حصہ ترقیاتی کاموں پر لگایا گیا۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آج کے مشرف اور اس دور کے مشرف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔نہ وہ وردی رہی نہ وہ صدارت اور نہ ہی وہ امریکہ۔

آج کے مشرف کو آرٹیکل چھ کا سامنا ہے۔جنرل مشرف کے تمام مخالفین حکومتی عہدوں پر بھی فائز ہیں اور آزادی سے سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔جبکہ جنرل مشرف کے پرانے ساتھی اُن کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہےاسٹبلشمنٹ کے دماغ میں یہ منصوبہ بہت پہلے سے موجود تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت جنرل مشرف کے سپرد کردی جائے اور اس منصوبے پر عمل کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم سے نکالے گئے لوگوں کو درآمد کیا گیا۔

آپریشن کا آغاز ہوا۔ ایم کیو ایم کے مو قف کے مطابق دوران حراست کارکنوں کو خوفزدہ کرنے کےلئے اور وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہی موقف ہے کہ یہ آپریشن صرف دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رینجرز کو کراچی میں اختیارات دینے کے بعد اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے مگر اسٹریٹ کرائمز میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔کچھ لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ حالیہ دنوں کراچی میں جو فرقہ واریت پھیلی یا پھیلائی گئی اُس کا مقصد یہی ہے کہ مستقبل قریب میں مشرف کے ساتھ شامل ہونے والے افراد کو مقبول کیا جاسکے۔

جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ان تمام باتوں کا مقصد سندھ کے شہری علاقوں کے افراد کی بڑی اکثریت کی نمائندہ جماعت پر اپنے مہروں کو قابض کروانا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ مصنوعی طریقے سے کسی سیاسی جماعت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتائج منفی برآمد ہوتے ہیں۔ ایک شخص نے طلبہ تنظیم بنائی اور اپنی جدوجہد کا آغاز ففٹی موٹر سائکل سے کیا یہ ففٹی چلتی رہی اور منزلیں طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔

ایم کیو ایم کے بانی نے تنکا تنکا چُن کر جھونپڑا بنایا جسے اُس تحریک کی جدو جہد میں جان دینے والے افراد نے خون سے سینچا اور وہ تنکے سونے کے ہوگئے۔مٹی سے ہیرے تراشے گئے جن کے بازار میں آج دام لگ رہے ہیں۔

وہ کمیونٹی جس نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ان کا گورنر ہوگا وزارتیں ملیں گی مئیرشپ ملے گی۔اُنھیں یہ تمام کامیابیاں ایک قلیل عرصے میں حاصل ہوئیں۔ ایم کیو ایم کے دعوے کے مطابق ہزاروں کارکنان قتل کردئے گئے یا لاپتہ کردئے گئے اور اسیر بنادئے گئے۔

اگر بائیس اگست کو لگنے والے نعروں کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بانی ایم کیو ایم کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوگی۔ اگر اُس نعرے کو مد نظر بھی رکھا جائے تو اُس کے بعد معافی مانگی جاچکی ہے۔

انصاف کا تقاضہ یہی ہے کے اس معاملے کو عدالت کے سپرد کردینا چاہیے جہاں ہر فریق کے وکلا کو اُن کا موقف پیش کرنے کی آزادی ہونی چاہیے اگر عدالت الطاف حسین کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو یہ اختیار عوام کا ہے کہ وہ کس کو اپنا قائد یا رہنما تسلیم کرتے ہیں اور اس بات کا فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہوجائے گا۔

ایم کیو ایم کے لوگوں کو بھی یہ اچھی طرح یاد ہے کہ یہ وہی مشرف صاحب ہیں جنھوں نے بارہ مئی کو ایم کیو ایم کو استعمال کیا جس کے لگے ہوئے داغ ایم کیو ایم آج تک اپنے دامن سے دھو نہیں پائی اور آج تک لوگ سزائیں بھگت رہے ہیں۔

جنرل مشرف کے لئے بغیر وردی کے کسی بھی طرح کی مہم جوئی اُن کی بچی کھچی ساکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی اور یہ عین ممکن ہے کہ جنرل مشرف کے پرانے دشمن اُن کے ساتھ بھی کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے