آو مل کے کریں آہ و زاریاں

کرپشن کوئی ایک لفظ نہیں ہے بلکہ انسانی معاشرے کی خوبصورتی کو کھانے والاوہ عفریت ہے جس سے شاید ہی معاشرے کا کوئی فرد محفوظ ہو۔اس کی سب سے بد ترین شکل رشوت ہے اور رشوت سے مراد ناجائز حصول دولت ،ناجائزنذرانہ اور ناجائز طریقے سے رقم حاصل کرنا ہے۔یعنی کسی کام کی تکمیل کے لیے جوناجائز رقم وصول کی جائے اسکو رشوت کانام دیا جاتا ہے ۔

رشوت کرپشن کی وہ صورت ہے جس کو بہت بڑی لعنت قرار دیا گیا ہے کیونکہ کسی ناجائز کام کورشوت سے جائز بنالیا جاتاہے جس سے معاشرے میں ناانصافی،حق تلفی اور خصوصاً غریبوں کا استحصال ہوتا ہے کیونکہ امیر تو پیسے دے کر اپنے کام نکلوا لیتے ہیں اور غریب کی فائل برسوں سرخ فیتے کا شکار رہتی ہے۔

اس وقت ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں گھراہوا ہے ۔ہر طرف ظلم کی داستانیں، قتل کے واقعات، ملاوٹ،ماردھاڑ اور اس قسم کی بے شمار برائیاں دیکھنے میں آتی ہیں لیکن سر فہرست رشوت ستانی ہے اور یہ اس موجودہ معاشرے میں باقی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہ معاشرے کے اخلاقی،قانونی،سماجی اور معاشی قواعد کی خلاف ورزی ہے۔

آج معاشرے میں جو نفرت ،تضاد،انتشار اور بے چینی پائی جاتی ہے اسکا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ لوگوں میں رزق کے حلال و حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے ۔کریشن اوررشوت پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے جسکی وجہ سے انسان کی پرورش وپرداخت میں حرام کا عنصر شامل ہو رہا ہے۔ایک حدیث کے مطابق’’جس کا کھانا حرام‘پینا حرام ‘لباس حرام‘ اور غذاحرام ہو تو اس کی دعا قبال نہیں ہوتی ‘‘ ۔(مسلم)

یہ کرپشن اور رشوت ہی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ صالح سوچ‘نیک عمل اور اتحادواتفاق کی نعمت سےمحروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ رزق حرام کے شدید ترین نقصانات میں سے ایک نقصان یہ بھی ہے کہ زندگی کا اطمینان و سکون ختم ہو جاتا ہے اور اتحادو اتفاق کی بجائے انتشار اضطراب اور نفرت و حقارت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔

مادہ پرستی اور دولت کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے جو اس شخص کو اسی فکر میں رکھتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کیسے حاصل کی جائے ۔چاہیے یہ دولت جائز طریقے سے آئے یا ناجائز ذریعے سے پھر یہیں سے انسانی حقوق کی پامالی اور حق تلفیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نفسانفسی اور مادہ پرستی کے اس دور میں قوم کے اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا قطعی ناممکن ہے۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال
ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کی زبان ہو جا محبت کا بیاں ہو جا

دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ جب انسان کے پاس اختیارات آجائیں تو کرپشن درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسکی سب سے بڑی مثال کرپٹ حکومتیں ہیں جواپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لیے سیاستدانوں کو اپنے ساتھ شامل رکھنے کے لیے ان کی ہر جائز بات مانتی ہیں اور ان کوسیاسی رشوت دے کر اپنے ساتھ شامل کرتی ہیں اس رشوت میں پلاٹ‘پرمٹ‘لائسنس‘ویزا‘ملازمت (اپنے نا اہل اولاد اور خاندان کے دیگر افراد کے لیے )اور بھاری بھاری رقوم شامل ہیں۔

یوں یہ سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کوبالاتر جانتے ہوئے حکومت سے اپنے ناجائز مطالبات منواتے ہیں اور پھر اپنی من مانی کاروائیاں شروع کر دیتے ہیں اور پھر ملک کے خزانے کو اس انداز میں لوٹا جاتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

"Power corrupts and absolute power corrupts absolutely”۔

بات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی سیاستدانوں اور بیورہ کریسی کے ساتھ ساتھ کرپشن کی جڑیں عوام تک بھی پھیلی ہوئی ہیں ۔یہاں جب ہر دوسرے بندے کوسرکار سے اور سرکاری دفاتر سے واسطہ رہے تو اکثر وبیشتر اپنے کسی جائز اور صحیح کام کو بر وقت کراونے کے لیے بھی رشوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کیونکہ ان کی فائل یا کیس پر مختلف قسم کے اعتراضات لگادئیے جاتے ہیں اور مزید کارروائی روک دی جاتی ہے تاکہ اس کی خاطر رقم وصول کی جائے اگر رشوت نہ دی جائے تو کام کی تکمیل میں تاخیر کر دی جاتی ہے اور سائل کو دفتر کے چکروں میں رکھا جاتا ہے ۔

اگر رشوت کی بارش بر وقت ہو جائے تو ناجائز کام بھی بغیرکسی تاخیرکے ہو جائے گا۔ بعض اوقات اس موقع پر کچھ لوگ اپنے ذاتی مراسم بھی استعمال کرتے ہیں اور یوں سفارش اور اقربا پروری بھی دفاتر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اپنے اپنے مفادات کے جلدحصول کے لیے دی جانے والی اس رشوت کو عام طور پر ’’چائے پانی ‘‘یا ’’تحفہ ‘‘کانام دیا جاتا ہے۔

کرپشن کی جڑیں سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر دونوں میں بہت گہری ہو چکی ہیں اور ایک عفریت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔جبکہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف تو سب ہی کرتے ہیں تاہم ان کے سدباب کے لیے کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچتا۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک معمولی سرکاری ملازم کی تنخواہ اس قدر کم ہوتی ہے کہ وہ بمشکل گزارہ ہی کر سکے لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہو تا ہے وہ ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اب عوامی سطح پر بھی دولت اور وہ بھی کم مدت میںآسائشوں کے حصول کے لیے شارٹس کٹ راستے استعمال کیے جاتے ہیں اور اس اخلاقی کرپشن کی وجہ سے نااہل افراد آگے نکل جاتے ہیں جبکہ اہل اور مستحق افراد ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
دوسری جانب ایک کم آمدنی والے گھرانے کی لڑکی اور لڑکے کے پاس قیمتی موبائل فونز اور بوتیک کے ملبوسات اور جوتے بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ ناجائز زرائع سے اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اخلاقی حدود کو خیر باد کہہ چکے ہیں ۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے اگست 1947میں قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

’’میں رشوت ‘کرپشن‘ذخیرہ اندوزی اور اقربا پروری کی مذمت کرتا ہوں جس میں انڈیامبتلا ہو چکاہے۔ یہ سب کچھ زہر ہے ہمیں اسکو مضبوطی سے دبا دینا چاہیے۔ ملک میں لاء اینڈآرڈر کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ گورنمنٹ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کریں۔‘‘

مجموعی طور پر ہر شریف شہری رشوت ستانی اور بڑھتی ہوئی کرپشن سے بری طرح نالاں ہے کیونکہ ملک میں کرپشن کی بد ترین شکل رشوت عام ہو چکی ہو تو یہ وہاں کی حکومت اور انتظامیہ کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔

حکومت کے اختیارات کی نوعیت مراعات نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک بہت بھاری ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر شہری اور اس ملک کے زرائع ابلاغ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں اورانتظامیہ کے غلط اقدامات پر کڑی نکتہ چینی کرے کیونکہ اس احتساب کے عمل میں کمی کے باعث ہی معاشرے میں رشوت اور کرپشن نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں ہیں۔احتساب کا عمل نیچے سے اوپر تک ہر سطح پر ہونا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے