راحیل شریف کی رخصتی اور اہل سیاست

آصف محمود
جنرل راحیل شریف کا عہد تمام ہوا ، اب وہ تاریخ کی امانت ہیں اور تاریخ ہی اپنی امانت کے بارے میں صائب فیصلہ کرتی ہے۔تاہم تاریخ کی اس حیثیت کے اعتراف کے باوجود ایسا نہیں ہوتا کہ کسی شخص کے بارے میں سب کچھ تاریخ پر چھوڑ دیا جائے ۔لمحہ موجود کی شہادت بھی تزکیہ الشہود کے معیار سے فروتر قرار نہیں دی جا سکتی،مردِ کامل تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کہ خطاﺅں سے پاک ہو ،ایک جمع تفریق ہی ہے جس پر کسی شخص کو پرکھا جا نا چاہیے کہ خوبیوں کا پلڑا بھاری تھا یا خامیوں کا۔اس میزان پر پرکھا جائے تو جنرل راحیل شریف اپنی ذمہ داریوں کے باب میں بڑی حد تک سرخرو ہیں۔

تاہم جہاں جنرل راحیل شریف کی کئی خوبیاں مسلمہ ہیں وہیں ان سے ایک ایسا کام بھی ہوا ہے جس نے اس ملک میں حقیقی احتساب کی اس منزل کو جو چند قدموں کے فاصلے پر تھی برسوں کی مسافت پر لے جا کر کھڑا کر دیا ہے۔

ملک میں پہلی دفعہ ایک آئین شکن کا احتساب ہونے جا رہا تھا، اگر قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جاتا، بیماری کے بہانے سے آرمی کے امراض دل کے ہسپتال کی عزت داﺅ پر لگا کر انہیں وہاں نہ رکھا جاتا اور اگر جنرل مشرف کو ملک سے باہر نہ بھجوایا جاتاتو یہ وطن عزیز میں ایک بامعنی احتساب کا نقطہ آ غاز ہوتا اور پھر قانون میں یہ بانکپن آ جاتا کہ وہ ہر بارگاہ پر دستک دے ۔

یہ ایک پیغام ہوتا کہ اب یہ ملک جارج آرول کا اینیمل فارم نہیں رہا جہاں سب برابر ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ’ زیادہ برابر‘ ہوتے ہیں اور قانون میں جرات نہیں ہوتی وہ ان ’ زیادہ برابر‘ لوگوں کی دہلیز پر دستک دے سکے۔لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔چنانچہ اب اہل سیاست کا پیغام واضح ہے کہ اگر اس ملک میں مقدس گایوں کے باڑے موجود رہنے ہیں تو ہمیں بھی ، چھوٹی ہی سہی، لیکن ایک مقدس گائے سمجھا جائے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون مشرف کے بوٹوں کو بوسہ دے کر لوٹ آئے لیکن نواز شریف اور آصف زرداری پر بھوکے عقاب کی طرح ٹوٹ پڑے۔اب ڈاکٹر عاصم کیس ہو ،ایان علی کیس ہو یا پانامہ لیکس ۔۔۔۔اہل سیاست زبان حال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ بھائی قانون اگر اُدھر نہیں جا سکتا تو ہم اس کو اِدھر کا رخ بھی نہیں کرنے دیں گے۔رہنا ہو گا تو مل جل کے ہنسی خوشی رہنا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے