کشمیریوں کی غیرمسلح مزاحمت موثر ہوگی،جنگ ممکن نہیں ،مذاکرات ہی حتمی آپشن ہے: خورشید محمود قصوری

بدھ کی سہہ پہر لاہور پریس کلب میں ’’ٹاک آن کشمیر ،اے میٹر آف پالیسی‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری ، ممتاز دانشور رئیس بخش رسول اور ممتاز کشمیری صحافی ملک عبدالحکیم کشمیری نے شرکاء سے گفتگو کی ۔

خورشید محمود قصوری نے کہا ’کشمیر سے آنے والی خبریں دردناک ہیں۔ مودی ’’وار ہسٹیریا‘‘ کا شکار نظر آتا ہے ۔ کشمیریوں پر مظالم کے ذریعے وہ ان کو ڈرانا چاہتا ہے ۔ اس سے قبل مودی سرکار نے سرجیکل اسٹرائکس کا ڈرامہ کر کے بھارتی عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ‘

’ بھارت اور پاکستان کے تعلقات خصوصی نوعیت کے ہیں جو کہ ہموار نہیں رہ سکتے ۔دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اس لیے جنگ کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے ۔ان کے پاس مسئلہ کشمیر کے مذکرات کے ذریعے حل کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن نہیں ہے ‘

ان کا کہنا تھا ’ نام نہاد عالمی برادری کو کشمیر کے مسئلے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ نام نہاد عالمی برادری چاہتی ہے کہ کوئی بھی جغرافیائی تبدیلی نہ ہو ، یہ تلخ حقیقت ہے جسے سمجھنا چاہئے ‘

’کشمیریوں کی غیر مسلح مزاحمت بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی ۔ اسی طریقے سے اندھی بہری عالمی برادری کو متوجہ کیا جا سکتا ہے ‘

’بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی جنگیں ہوچکیں مگردونوں ممالک ایک دوسرے سے زمین کا ایک اِنچ بھی نہیں لے سکے ۔ بھارت پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنا چاہتا ہے ، اوفا کانفرنس میں کشمیر کا ذکر نہ ہونا اور سیکریٹری سطح کی ملاقات کا منسوخ ہونا ، سارک کا نفرنس کو ناکام بنانا اسی ایجنڈے کی کڑیاں ہیں تاہم بُرکس کانفرس میں بھارت کو اس مقصد میں‌ ناکامی ہوئی ‘

انہوں نے کہا ’ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی پذیرائی حاصل نہ کر سکے ۔ اگر مودی جنگ کرے گا تو یہ مسئلہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر جائے گا‘

’ کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی مودی کی جانب سے بھارت کے آئیندہ عام انتخابات میں اُتر پردیش اور پنجاب میں الیکشن جیتنے کا ایک حربہ ہے‘

انہوں نے کہا ’ماضی میں بھارت کے دوزراء اعظم اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ اس بات پر یکسو ہو چکے تھے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ۔ منموہن سنگھ نے تو سیاچن کو ’’ماؤنٹین آف پیس‘‘ قرار دے دیا تھا‘

خیال رہے کہ فوجی آمر جنرل (ر)پرویزمشرف کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل اعلیٰ سطحی خفیہ ملاقاتیں ہوئیں تھیں ۔ یہ کئی برسوں پر محیط بیک ڈور ڈپلومیسی کا حصہ تھا ۔ اس دوران کشمیری سیاست دانوں سے مل کر ان کی رائے بھی معلوم کی گئی تھی اور ان کا پاکستان اور آزادکشمیر کا دورہ بھی ممکن بنایا گیا تھا

اسی بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خورشید محمود قصوری نے کہا’ شروع میں بھارت اسٹیٹس کوکے علاوہ کوئی بات سننے کو تیار نہ تھا ۔ پھر رفتہ رفتہ یہ برف پگھلی اور ہم چار بنیادی نکات پر تقریباً متفق ہو گئے تھے جن میں کشمیر سے دونوں ممالک کی فوجوں کا انخلاء، کشمیریوں کی اس خطے میں سیلف گورننس ، معاہدے کے پندرہ سال بعد اس فیصلے پر نظرثانی کا حق اور ریاست جموں وکشمیر کی جغرافیائی تعریف وتحدید شامل تھے ‘

4ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’ ہم اس وقت ذرائع ابلاغ کی نظروں سے پوشیدہ رہ کر ایسا قابل عمل مسودہ تیار کر رہے تھے جسے باقاعدہ طور پر پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور پھر تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے کے بعد اس پر عمل ممکن بنایا جاسکے لیکن بدقسمتی سے وہ مرحلہ نہ آسکا‘

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اب اسے پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا ۔ بھارت میں بھی لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کشمیریوں کو اب دبایا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا ’ پاک بھارت جنگ ممکن نہیں اب صرف ’بیلنس آف ڈس سٹیٹس فکشن‘ ہو سکتا ہے ‘

کشمیری صحافی اور دانشور ملک عبدالحکیم کشمیری نے کہا ’ مقبوضہ کشمیر میں برھان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی جد وجہد کو نئی توانائی ملی ہے ۔ کشمیری اس وقت شدید مشکلات کے باوجود اپنے حق آزادی کے لیے پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں ‘

’ کشمیریوں کو پاکستانی عوام سے محبت ہے لیکن پاکستانی حکومت کی کشمیر سے متعلق پالیسیوں سے انہیں شکایت ہے ‘

انہوں نے کہا ’ 1947ء میں کشمیر کے حکمران مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ معائدہ قائمہ کر لیا تھا لیکن اس کے بعد اقوام متحدہ کی قرار داد میں پاکستان کی
جانب سے یہ بھی لکھ کر دے دیا گیا تھا کہ وہ اپنی ساری فوج کشمیر سے واپس بلا لے گا ‘

انہوں نے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی ایک قرارداد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ اس میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ہندوستان کے ساتھ مشروط کر دینا پاکستان کی سفارتی غلطی تھی ‘

انہوں نے کہا ’ اگر اس وقت کشن گنگا کے معاملے پر اسٹینڈ لیا جاتا تو آج بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی دھمکیوں کی نوبت نہ آتی‘

ملک عبدالحکیم کشمیری ''تنازعہ کشمیر،حقیقت کے آئینے میں '' نامی کتاب کے مصنف ہیں
ملک عبدالحکیم کشمیری ”تنازعہ کشمیر،حقیقت کے آئینے میں ”نامی کتاب کے مصنف ہیں

’آزادکشمیر کی حکومت عملی طور پر بے اختیار ہے ۔ اس پر کشمیر کونسل کو مسلط کیا گیا ہے جس کے پاس تمام اہم اختیارات ہیں ۔ جب آزادکشمیر بااختیار نہیں ہو گا تو مقبوضہ کشمیر والوں کے لیے اس میں کشش کیسے پیدا ہوگی ‘

’مظفرآباد کو آزادی کا بیس کیمپ ہونا چاہئے تھا مگر وہاں ہونے والی سرگرمیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اسے الحاق کا بیس کیمپ بنایا گیا ہے ، وہاں الیکشن میں شامل ہونے کے لیے الحاق کو تسلیم کرنالازمی شرط ہے ‘

انہوں نے کہا ’ہمیں جہادیوں کے اخلاص پر شبہ نہیں لیکن ماضی کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ جہاد کی پالیسی مسئلے کا حل نہیں ‘

’ پاک چین اقتصادی راہداری کا متنازع جموں وکشمیر کی ایک اہم اکائی گلگت بلتستان گہرا تعلق ہے ، گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوشش کی گئی تو باقی ماندہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو جواز مل جائے گا ‘

ممتاز دانشور اور مصنف رسول بخش رئیس کا کہنا تھا ’ سب سے اہم چیز قومی شناخت ہے ۔ کشمیری ایک قوم ہیں جن کی اپنی تاریخ ، زبان اور ثقافت ہے ۔

Rasool bakhash raees
رسول بخش رئیس پاکستان کے معروف ماہر سیاسی امور ہیں

’ قومی شناخت پیدا کرنے کے لیے صرف سیاسی مکالمہ کافی نہیں بلکہ ادب کے ذریعے اپنی زبان، ثقافت ، تاریخ اور ہیروز کو پیش کیا جاتا ہے ۔ ادب بالواسطہ طور

پر فوج کا سا کردار ادا کرتا ہے اور اس سے معاشرے میں انقلاب آتے ہیں۔

انہوں نے افریقن نیشنل کانگریس اور فلسطین کی انتفادہ تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے کہ کہا ’ آج کے دور میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی قوموں کی غیر مسلح مزاحمت زیادہ اثر رکھتی ہے ۔ آج کشمیری غیرمسلح جدوجہد کر رہے ہیں تو ان میں دنیا کی کامیاب تحریکوں کی جھلک نظر آتی ہے ‘

’ پرامن جدوجہد کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے ۔ اس کے لیے زیادہ حوصلے اور برادشت کی ضرورت ہوتی ہے ‘

انہوں نے کہا ’ جو کشمیری مغربی ممالک میں مقیم ہیں ان کی مالی اعانت کر کے انہیں دنیا کی بڑی یونیوسٹیوں میں تعلیم دلانی چاہئے تاکہ وہ خود اپنی مؤثر آواز بن سکیں ۔

’پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ میں اپنے سفیروں کو متحرک کرے ۔ وہ مختلف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں جا کر کشمیریوں کی اس مزاحمتی تحریک کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں‘

لاہور پریس کلب کے صدر محمد شہباز میاں نے کہا ‘ہم لاہور پریس کلب میں کشمیر کے موضوع پر کئی سیمینار کر چکے ہیں .ہماری کوشش ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر سے متعلق آگاہی اور مکالمے کے لیے فورم مہیا کریں تاکہ سیاست دان اور دانش ور اس موضوع پر اپنے تجربات کی روشنی میں‌شرکاء کو معلومات فراہم کر سکیں ‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے