ٹیم کا انتخاب

ہر لیڈر اچھے کردار رکھنے والے لوگوں پر مشتمل اپنی ٹیم بناتا ہے، وہ ان سے مشاورت کر کے فیصلے کرتا ہے، اچھے لوگ خدا کی نعمت ہوتے ہیں اور ان کی مشاورت میں خدائی برکت شامل ہوتی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف نے عوام سے اپیل کی تھی کہ ن لیگ کے پاس تجربہ کار ٹیم موجود ہے جو آپ کے مسائل کا حل نکالے گی اسے ووٹ دے کر کامیاب بنائیں۔ میاں نواز شریف کے پاس واقعی تجربہ کار لوگوں کی ٹیم موجود ہے اور اس ٹیم نے جس طرح پاکستانی عوام کے ”کڑاکے کڈے” مدتوں یاد رہیں گے۔

آج ہم تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی ٹیم کو زیربحت لائیں گے، 2013ء کے بعد کپتان کی سیاسی اننگز پر نظر دوڑائی جائے تو کامیابیوں اور ناکامیوں کا تناسب برابر برابر ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں میں بھٹو شہید کے بعد کپتان واحد سیاست دان ہے جو کرشمہ ساز ہے یوتھ کی ایک بڑی تعداد انھیں آپنا آئیڈل لیڈر مانتی ہے۔ نوجوان نسل جو سیاست سے لاتعلق ہو رہی تھی کپتان نے اسے سیاست میں انوالو کیا ، پاکستانی عوام کو شعور دیا۔ زریاب بھی ان نوجوانوں میں سے ایک ہے جس کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد والد کے بزنس میں ہاتھ بٹانے لگا، اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ کپتان کے کھرے پن نے اسے سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا ، 2013ء کے عام انتخابات میں اس نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ اسلام آباد دھرنے میں بھی وہ شریک ہوتا رہا، کپتان نے جب بھی کہیں جلسے کی کال دی اس نے جلسے میں شرکت کو یقینی بنایا پارٹی فنڈ میں پیسے بھی باقاعدگی سے دیتا ہے۔

ہفتہ قبل ہماری اس سے ملاقات ہوئی، وہ کپتان کے مشیروں کو کوس رہا تھا، اس کا کہنا تھا کہ 2نومبر کو کپتان نے اسلام آباد لاک ڈائون کرنے کی کال دی، تحریک انصاف کے کارکن پرجوش تھے ہم نے حکومتی فسطائیت کا مقابلہ کرنے کی پوری تیاری کی ہوئی تھی مگر دو نومبر سے قبل جب تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد ”کٹ” پڑ رہی تھی تو شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہاں شاہ محمود قریشی کو کارکنوں کا ساتھ دینا چاہیئے تھا نہ جانے کس کس قماش کے لوگ کپتان نے اپنے ارد گرد جمع کرائے ہیں ، اگر مشیر جاہ پرست ،موقع شناس اور ہرجائی ہوں ان کا کچھ بگڑے نہ بگڑے لیڈر کو وہ لے ڈوبتے ہیں۔

یہی مشیر کپتان کو بند گلی میں دھکیل کر خود تماشا دیکھتے ہیں، یہ پچ کے دونوں طرف بیٹنگ کرتے ہیں۔ اندر خانے حکومت سے ملے ہوتے ہیں اور ان سے مراعات بھی لے رہے ہوتے ہیں، ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا کپتان کی سیاست دائو پر لگی ہوئی ہے۔

جنرل(ر) کے ایم عارف اپنی کتاب ”ضیاء الحق کے ساتھ ” میں ضیاء الحق کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر محمود درانی کا حوالہ دیا جو تین سال تک مرحوم جنرل کے ساتھ وابستہ رہے جنرل عارف لکھتے ہیں۔

”درانی سے سوال کیا گیا کہ ایسے تین لوگوں کے نام بتائیں جنہوں نے ضیاء کی شخصیت کو سب سے زیادہ ضعف پہنچایا تو انہوں نے مسٹر محمد اسلم خٹک ، لفٹیننٹ جنرل رفاقت اور جنرل حمید گل کا نام لیا اس طرح ان سے پوچھا گیا کہ ایسے تین اشخاص کی نشاندہی کریں جنہوں نے ان کے دور اقتدار کو طول دینے میں نمایاں کردار ادا کیا سب سے پہلے انہوں نے مسٹر غلام اسحاق خان کا نام لیا جنہوں نے ملک کی مالی اور اقتصادی پالیسیاں وضع کیں اور ضیاء کی بھرپور تائید کی، دوسرا نام جنرل غلام جیلانی کا تھا جنہوں نے 80ء کے وسط سے ملک کے سب بڑے صوبے (پنجاب) کا نظم و نسق خوش اسلوبی سے چلایا اور جب رخصت ہوئے تو ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا اور تیسرا نام خود جنرل عارف کا ہے جنہیں اس دور کا ”ڈی فیکٹو وزیراعظم” کہا جاتا ہے”۔

عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے کے پی کے میں حکومت بنائی،تعلیم ، صحت ، پٹوار اور پولیس نظام میں انہوں نے اصلاحات لائی مگر ابھی بہت کچھ کرنے کو باقی ہے۔ کے پی کے کو اچھی گورننس دے کر دوسرے صوبوں کیلئے رول ماڈل بنانا چاہیے تھا، تین سالوں میں تحریک انصاف کی ساری سیاست احتجاج کے گرد گھومتی رہی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت ٹھیک طرح کام نہیں کر سکی۔

کپتان کا بڑا المیہ نرگسیت کا شکار ہونا ہے ، وہ فیصلے لینے میں جلدی کردیتے ہیں بعد میں انھیں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ ترک صدر کی آمد کے موقع پر انہیں اسمبلی میں جانا چاہیے تھا، بات وزیراعظم کی تلاشی کی تھی تو اعلیٰ عدالت نے تلاشی شروع کر دی تھی بائیکاٹ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان تین سالوں میں وہ اسمبلی میں رہ کر قانون سازی کروا سکتے تھے ۔ان کا سب سے بڑا مطالبہ الیکشن اصلاحات کا تھا جس میں وہ مکمل ناکام رہے انھوں نے احتجاجی سیاست کر کے اپنا قمیتی وقت ضائع کیا ۔کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا مسلہ ہے انھوں نے اس ایشو کو مرنے نہیں دیا جس کی وجہ سے ملک کی اعلی عدالت حکمرانوں کی تلاشی لے رہی ہے ۔کپتان نے ایک بار پھر اسمبلی میں جانے کا عندیہ دیا ہے انھیں اسمبلی سے بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی نااہل مشیر ان سے غلط فیصلے کروا رہے ہیں کپتان کو ادراک کر لینا چاہیے کہ اس کی آستین کے سانپ کون ہیں ان سے جلد چھٹکارا کیلئے تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے