کیا مخلوط رقص ناگزیر ہے؟

عہد جدید میں جو لوگ دجالی نصب العین اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ہماری نظر وہاں تک نہیں پہنچ سکتی اور جو نقلی نقاب چڑھائے ہوئے ہیں ہم ان کو پھاڑ نہیں سکتے تعمیری طمع کاریوں کی سطح چمک دمک سے ہماری نگاہیں خیرہ ہورہی ہیں ۔اسی لیے خود قول کی تنقید کی ہم میں جرت نہیں رہی۔

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

من اغفلنا قلبہ عن ذكرنا واتبع ھواه وكان أمره فرط
” جس دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل بنادیا ہے اور وہ پیچھے چل پڑا اپنی ہوا کے اور کام
ہے اس کا بے ڑھنگا”

معیار زندگی کی بلند و برتری کا صور آج جو پھونک رہے ہیں اور اسکا شور دنیا مچائے ہوے ہیں انکی پہچان کے لیے یہ قرآنی لکیریں ایسی ہیں کہ زیادہ غور و تامل کی ضرورت نہیں وہ بھی ہوں جہاں بھی ہوں ان کی تمام خصوصیات میں نمایاں یہی ہیں۔

مومن کا وجود خواہ کیسی ہی کٹری اور گھٹن میں گھڑیا ہوں لازمی وجود بن کر نہیں رہ سکتا لازمی سے مراد اپنی ذات تک محدود رکھنا ایمان کی شان ہی یہ نہیں ہے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ایمان کے دائرے میں لانا بڑا اہم ہے

(کہہ دو جو حق ہے تمہارے پالنے والے کی طرف سے )

ہماری نسلیں جدید جامعات اور یونیورسٹیوں میں بھڑیا دھسان کی شکل میں دھنستی چلی جارہی ہیں ۔مسلمان درگورو مسلمانی در کتاب کا دردناک نظارہ بے نقاب ہوکر دھمکیاں دے رہا ہے کہ کچھ دن اور غفلت سے کام لیا گیا تو کتابوں والی مسلمانی بھی کیڑوں کے پیٹ میں دفن ہو جائے گا ۔

بہرحال جن جان سوز،روح گسل،جگر خراش آثار و نتائج موجودہ دجالی فتنہ ابھر رہا ہے وقت پر ختم نہ کیا گیا تو ہماری نسلوں میں پھیل جائے گا ۔

آج ہم لوگ قدم بہ قدم برائیوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے جارہے ہیں ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ شادی بیاہ کی تقریب میں میں بھی لوگ ناچنے سے شرماتے تھے مگر رفتہ رفتہ برائی پھیلتی گئی ایک کے بعد دوسری برائی آئی دوسری کے بعد تیسری برائی شروع ہوئی اسی طرح برائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور کسی اللہ کے بندے نے اسٹینڈ نہیں لیا اور جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ برائی پھیلتی چلی گئی ۔

گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جو اپنے مخصوص رقص کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے

جو اب آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا ہے اور اس میں موجود دور کا گہرا اثر پڑتا جا رہا ہے ۔ چلو ہم مانتے ہیں کہ عورتوں کا رقص ہمارا رواج تھا تو کیا ہم آج اتنے آزاد خیال ہوگئے کہ اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مخلوط اجتماع کا سلسلہ شروع کر دیں؟

اور دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان اجتماعات میں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا مخلوط رقص شروع ہوگیا ہے ۔ اگر ہم ان موقعوں پہ ہتھیار ڈال کے بیٹھ گئے اور اپنی بہو بیٹیوں کو سرے بازار ناچتے ہوئے دیکھتے رہے تو ناسور کی طرح ہماری نسلوں کی نسوں میں پھیل جائے گا ۔ ہم کب تک ان دجال کے سپاہیوں کو اپنی ثقافت اور اسلامی تعلیمات سے کھیلنے دیں گے جو بظاہر مسلمان تو ہیں مگر اندر قبل اسلام کے عقائد رکھتے ہیں ۔ اور دلائل دیتے ہیں کہ وقت کے ساتھ تبدیلی لازمی ہے اور عورتوں کی امپاورنمنٹ کی آڑ میں روایات اور اسلامی تعلیمات سے کھیل رہے ہیں ہیں ۔ بعض اوقات لوگ اس معاملے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ یہ بڑا نازک معاملہ ہے کہ کس بات پر اور کسی موقع پر اسٹینڈ لے۔

مخلوط اجتماع والا معاملہ ایسا ہے کہ ہر شخص کو چاہیے کہ اسٹینڈ لے . یاد رکھیں اگر ہم آج کھڑے نہیں ہوئے تو کل سر پکڑ کر روئیں گے . ابھی بھی وقت ہے اس فتنے کو روکا جاسکتا ہے ۔ اور یہ سوچیں کہ ہمیں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔ اپنے طرز عمل پر نظرثانی کریں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے