مسرورومغموم طبقوں کےنام!

ضمنی الیکشن کچھ خاص اہمیت کےحامل نہیں ہوتے۔ہاں اگرجیتنےوالاامیدوار مولاناحق نوازجھنگوی کابیٹاہوتواسےاہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہےکہ دوتین دن سےالیکٹرانک،پرنٹ اورسوشل میڈیاپرزیرِ بحث رہنےوالااہم موضوع حلقہ پی پی 78 جھنگ کاضمنی الیکشن ہے۔یہ سیٹ مسلم لیگ نوازکی ایم پی اےمحترمہ راشدہ یعقوب صاحبہ کےنااہل ہونےپرخالی ہوئی تھی۔

1دسمبر2016کوہونےوالےضمنی انتخاب میں مولانامسرورنوازجھنگوی کے علاوہ مسلم لیگ نواز،پیپلزپارٹی اورتحریکِ انصاف کےامیدورسمیت 25 امیدواروں نےحصہ لیا۔مولانانے48563 ووٹ لئےجبکہ دوسرےنمبرپرنوازلیگ کےآزادانصاری صاحب نے35471 ووٹ حاصل کئے.پیپلزپارٹی اورتحریکِ انصاف کےامیدواروں نےباالترتیب3924،2845 ووٹ حاصل کئے۔

انتخابی نتائج کےبعدملک بھرمیں دوطبقات بھرپوراندازمیں پی پی78کےضمنی الیکشن پرتبصرےکررہےہیں۔ایک طبقہ”مسرور”ہےجومولاناکےانتخاب پرخوش ہےیامثبت ردِعمل کااظہارکررہاہے۔ایک طبقہ”مغموم”ہےجواپنی گرمی نکالنےکےلئےمسلسل مولاناکےانتخاب پرقومی سلامتی اداروں اورحکومت کےخلاف زبان درازی کررہاہے۔ان کاخیال ہےکہ مولاناکےجیتنےسےنیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمدمشکوک ہوگیاہے۔عدلیہ اورالیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھارہے۔

"مغموم”طبقہ کی باتیں بجاکہ مسرورنوازصاحب ایک ایسی جماعت کےسربراہ کےبیٹےہیں جوملک میں فرقہ واریت پھیلانےکی ذمہ دارسمجھی جاتی ہے۔یہ بھی بجاہےکہ وہ خودبھی نہایت شعلہ بیان مقررہیں۔مگراس وقت وہ جھنگ کی اکثریت کےنمائندہ ہیں۔ہم نےمتحدہ قومی موومنٹ جیسی جماعتوں کوعوام کی طرف سےملنےوالےمینڈیٹ کااحترام کیابھی اوراحترام کرنےکادرس بھی دیا۔انصاف کاتقاضہ یہ ہےکہ جھنگ کی عوام کےمینڈیٹ کابھی احترام کیاجائے۔بجائےاس کےکہ ان کےانتخاب پرالزامات یاطعنہ زنی کرکےان کی توہین کی جائے۔50ہزارکےقریب ووٹ لینے والےشخص کوسیاسی میدان اوراسمبلی آنےپرخوش آمدیدکہناچاہئے۔

مغموم لوگوں سےگزارش ہےکہ اگروہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کریں گےتوپھرجمہوریت کاکیاہوگا۔؟یہ کس طرح کی ریت قائم کی جارہی ہےکہ بہکےاوربھٹکےہوئےلوگوں کی واپسی پرشورشراباکیاجارہاہے۔؟جوشخص کل کسی کےمسلک ومذہب کوبرداشت کرنےپرتیارنہیں تھا۔آج اگروہ یہ اعلان کررہاہےکہ وہ بلاامتیازعوام کی خدمت کرےگاتوآپ کوکیااعتراض ہے۔؟جس نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کاروناآپ رورہےہیں اس کاایک نکتہ یہ تھاکہ بہکےہوئے لوگوں کی واپسی پرانہیں نہ صرف خوش آمدیدکہاجائےگابلکہ انہیں مراعات بھی دی جائیں گی۔تومولاناکاانتخاب لڑناملکی سلامتی کےخلاف کیسےہوگیا۔؟پنجابی طالبان اوران کےسرغنہ مولاناعصمت اللہ معاویہ اوربلوچستان میں ہتھیارڈالنےوالےلوگ اسی منصوبےکےتحت جب لوٹ کر آئےتوریاستی اداروں نےانہیں خؤش آمدیدکہا۔

مولانااحمدلدھیانوی صاحب کےالیکشن لڑنےاورلاہورہائی کورٹ سےاجازت ملنےپربھی یہ لوگ تلملارہےہیں۔حالانکہ مولانالدھیانوی انتہائی صبرآزمامراحل طےکررہےہیں ۔وہ اپنےلوگوں کوتشدد،جذباتیت اورنعرےبازیوں سےنکال کر امن،ہوش مندی اوراحترام کی طرف لےکرچلنےکی کوشش کررہےہیں۔مولانا مسرورنوازصاحب کل تک اگران لوگوں کےساتھ تھےجوکہ فرقہ وارانہ قتل وغآرت کاکھلم کھلا اعتراف کرتےتھے۔وہ آج مولانالدھیانوی کی کوشش وسرپرستی کی وجہ سےسیاسی میدان میں قدم رکھ چکےہیں۔اس پرمولانالدھیانوی کومبارکباددینی چاہئےاوران کی کامیاب کوششوں کوسراہناچاہئےتاکہ وہ اپنےمقصدکوپاسکیں۔اگرمولانالدھیانوی یاپھران کےپُرامن ساتھیوں کوبندگلی میں دھکیلنےکی کوششیں کی جاتی رہیں تواس کےنتائج کبھی بھی مفیدنہیں ہوں گے۔

دوسراطبقہ جوکہ مولانامسرورنوازصاحب کےحامیوں کاہےجومولاناکی بھرپورکامیابی پر نہایت مسرورہے۔اس طبقہ سےگزارش ہےکہ وہ اپنےجذبات قابومیں رکھیں۔صبروشکراوراحترام کارویہ اپنائیں کیوں کہ شدت پسندی اورعدم برداشت کاطعنہ دےکرلوگ مولاناکےالیکشن میں حصہ لینےپرتنقیدکررہےہیں۔آپ لوگ اپنےرویوں سےیہ ظاہرکریں کہ ہم واقعتاََ سیاسی میدان میں آئےہیں۔یہ بات ٹھیک ہےکہ مولاناکےووٹرزنےشایدووٹ ایک مشن کی خاطردئےہیں اوران کامطمعِ نظرسڑکیں،گلیاں نہیں ہوں گی۔مگربہت سےلوگوں نےاس لئےبھی ووٹ دئےہوں گےکہ جھنگ کے بنیادی مسائل کےحل کی طرف توجہ دی جائےگی۔اس لئےمولاناکوجھنگ کےعوامی مسائل پربھرپورتوجہ دینی ہوگی تاکہ آئندہ الیکشن کےلئےکوئی بھی امیدواراسی طرح کامیاب ہوسکے۔

مولاناحق نوازجھنگوی کوجھنگ کےمظلوم طبقہ کی ترجمانی کی وجہ سےہی شہرت ملی۔دفاعِ صحابہ ان کااہم مشن تھامگرجھنگ کی حدتک یہ بات نہایت اہم ہےکہ انہیں عوامی پذیرائی اسی وجہ سےملی کہ انہوں نےجھنگ کےفراعنہ کی نظروں سےنظریں ملاکرجینےکااعلان کیاتھا۔انہوں نےجھنگ کی پِسی ہوئی عوام کوظالم جاگیرداروں کےچنگل سےآزادکرانے کامیاب کوشش کی جس کاثمران کےجانشین حاصل کرتےآرہےہیں۔ان کابیٹاہونےکی حیثیت سےمسرور صاحب پریہ بھاری ذمہ داری ہےکہ وہ بلاتفریق مسلک ومذہب مظلوموں کی آوازبن کرجھنگ کےغریبوں کووڈیروں کی قیدسےآزادکرائیں۔

مولانامسرورنوازصاحب نےاپنی جیت کےبعدگفتگوکی کہ وہ تمام لوگوں کےساتھ مل کرھجنگ کی ترقہ میں کرداراداکریں گے۔انہوں نےاپنےحامیوں سےگزارش کی کہ سوشل میڈیاپرمخالفین کےحوالےسےمہم جوئی ختم کریں۔الیکشن کےبعدالیکشن سےپہلےوالےمعاملات کوبھلاکرجھنگ کےمسائل کےحل کےلئےمل کرکام کریں گے۔یہ نہایت ہی مثبت باتیں ہیں ان پرعمل درآمدکرنے سےمولاناکی ساکھ جھنگ کےسنجیدہ طبقات میں بہترہوگی۔سیاسی میدان میں آنےکےبعدسیاسی رویہ اپناناہوگامگروہ رویہ روایتی سیاستدانوں کاسانہیں ہوناچاہئے۔تاکہ آئندہ الیکشن میں مخالفین کویہ موقع نہ ملےکہ کوئی شدت پسندپھرسیاسی میدان میں آرہاہے۔حلقہ کی عوام کو بھی یہ حقیقی احساس ہوناچاہئےکہ انہوں نےجااگیرداروں سےبہترنمائندہ کاانتخاب کیاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے