’اشرف غنی کا بیان افسوسناک لیکن قابلِ فہم ہے‘

پاکستانی وزیراعظم کے مشیرر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے پاکستان کے بارے میں دیا جانے والا بیان افسوس ناک ہے تاہم افغانستان کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے اسے قابلِ فہم بھی قرار دیا۔

خیال رہے کہ اتوار کو انڈیا کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان پر ایک بار پھر شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگایا تھا۔

انڈیا کے سرحدی شہر امرتسر میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا تھا کہ ’پاکستان نے افغانستان کے لیے پانچ سو ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے، بہتر ہوگا کہ وہ اس رقم کو پاکستان کے اندر انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے استعمال کرے۔‘

کانفرنس میں شرکت کے فوری بعد وطن پہنچنے پر سرتاج عزیز نے کہا کہ انڈین میڈیا نے لشکرِ طیبہ،جیشِ محمد اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بات کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاہم اگر کانفرنس کے اعلامیے کو دیکھا جائے تو اس میں ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور پاکستان کے لیے خطرہ بننے والی دیگر دہشت گرد تنظیموں سمیت خطے میں موجود دیگر دہشت گرد تنظمیوں کے بارے میں بھی بات کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ تین سال میں پاکستان نے پوری دنیا سے زیادہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشش کی ہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ تناؤ کے باوجود انڈیا کے دورے کے فیصلے کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات متاثر نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’افغان صدر اشرف غنی کا بیان افسوسناک ہے لیکن قابلِ فہم بھی ہے کیونکہ افغانسان میں شورش بڑھی ہے، ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان کی نسبت دھماکوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں مایوسی کی کیفیت ہے اور جب مایوسی اور گذشتہ برسوں میں اس رجحان کو دیکھیں کہ ہر حملے کا الزام پاکستان پر لگتا ہے تو پھر اس کی سمجھ بھی آتی ہے کہ اس طرح کا بیان کیوں آتا ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ کانفرنس میں شرکت کے ساتھ ساتھ شریک ممالک کے وزرائے خارجہ سے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور کے مطابق انڈین حکام سے ملاقات کے لیے کوئی درخواست نہیں کی تھی تاہم کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر وزیراعظم نرینر مودی سے ملاقات ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہاں کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔

انھوں نے بتایا خراب موسم کی پیش گوئی کی وجہ سے جلدی انڈیا جانا پڑا جو کہ درست فیصلہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف کام اپنی قومی سلامتی کے لیے کر رہا ہے، کسی دباؤ کے تحت نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی سے ملاقات میں انھیں ایک بار پھر یقین دہانی کروائی گئی کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان صدر کو بتایا گیا ہے کہ سرحد پر نگرانی کے امور کو بھی مزید بہتر کرنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔

کانفرنس میں اپنے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ فوجی آپریشن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک متوازن طریقہ کار کی ضرورت ہے اور صرف سرحد پار چیزیں درست کرنے سے ہی سب کچھ ٹھیک نہیں ہو جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ‘صدر اشرف غنی یہ بیان ایک مخالف ملک کی سرزمین پر دے رہے تھے اور یقیناً وہ وہی کہہ رہے تھے جو وہ سننا چاہ رہا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے کی انڈیا کی کوششیں زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتیں۔

سرتاج عزیز نے افغانستان کو امداد کی پیشکیش کے بارے میں بتایا کہ اس سلسلے میں چین بھی مختلف پراجیکٹس کے ذریعے شامل ہونا چاہتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے